میں جھوٹ تو نہیں بول رہا، بس مذاق کر رہا ہوں!
محمد الشریف
فتح مکہ کے بعد روم کے بادشاہ کو جب مسلمانوں سے خطرہ محسوس ہوا تو اس نے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے بہت بڑا لشکر تیار کیا جس میں بازنطین اور شمالی عرب کے چند قبائل بھی شامل تھے۔
جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور بعض صحابہ اکرام کویہ اطلاع ملی تو کسی حد تک ان ميں خوف و حراس پھیل گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ یہ لڑائی تبوک میں لڑی جاۓ۔
عموما" حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب بھی جنگ کے لیے روانہ ہوتے تو اپنے لشکر کو ایک سمت جانے کا حکم دیتے اور بیچ راستے میں سمت بدل لیتے تاکہ کسی کو معلوم نہ ھو سکے کہ وہ کس طرف جا رہے ہیں۔ لیکن اس بار چونکہ زما نہ سخت گرمی کا تھا اور مقابلہ بھی سخت تھا اس ليۓ حضور اکرم نے صاف اعلان کر ديا تھا کہ قيصرروم کے مقابلے کے ليۓ چلنا ہے اس ليۓ تياری کر لی جاۓ۔ منافقین، معذورین، عورتوں اور بچوں کے علاوہ سب تياری میں مشغول ہو گۓ۔
البتہ تین اشخاص بلاعذر کے شریک نہیں ہوئے اور انشاءاللہ تعالی ھم انہی میں سے ایک صحابی حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر کریں گے۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کا قصہ احادیث میں کثرت سے آتا ہے وہ اپنی سرگذشت بڑی تفصیل سے سنایا کرتے تھے۔
وہ فرماتے ہیں کہ "میں تبوک سے پہلے کسی لڑائی میں بھی اتنا قوی اور مالدار نہیں تھا جتنا کہ تبوک کے وقت تھا۔"
ٹال مٹول کا انجام آپ دیکھیں، جب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ جنگ پر جانے کی تیاری کرنےلگے تو حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتےہيں کہ "میں بھی سامان سفر کی تیاری کا ارادہ صبح ہی سے کر لیتا مگر شام ہو جاتی اور کسی قسم کی تیاری کی نوبت نہ آتی۔ لیکن میں اپنے دل میں خیال کرتا رہا کہ مھجے وسعت حاصل ہے جب ارادہ پختہ کر لوں گا فورا" تيار ہوجاؤں گا۔ حتی کہ حضوراقدس روانہ بھی ہو گۓ اور مسلمين آپ کے ہمراہ تھے۔ مگر میرا سامان سفر تیار نہ ہوا۔ پھر بھی یہی خیال رہا کہ ایک دو روز میں تیار کر کہ جا ملوں گا۔ اسی طرح آج کل پر ٹلتا رہا حتی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وہاں پہنچنے کا زمانہ قریب آگیا۔"
جب حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ تعالی عنہ شہر میں نکلتے تو منافقین اور معذورین کے سوا کسی کو نہ دیکھتے۔ یہ وہی لوگ تھے جو صحابہ کرام سے کہتے " کیوں جا رہے ہو جنگ پر؟ شدید گرمی ہے۔" انہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا " کہو جہنم کی آگ اس سے بہت زيادہ شدید ہے۔"
چونکہ سب اہل ايمان آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ جہاد پر جا چکے تھے اور کعب ابن مالک رضی اللہ تعالی عنہ باوجود وسائل اور تنومندی کے جہاد پر نہیں گئے تھے۔اس ليۓ ضمیر اس پر ملامت کرتا تھا لیکن اب پچھتانا کسی کام کا نہ تھا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب بھی سفر سے لوٹتے اور دن کا وقت ہوتا تو سب سے پہلے مسجد کا رخ کرتے اور دو رکعات تحياتہ المسجد پڑھتے۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ سنت يہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص سفر سے واپس پہنچے تو سب سے پہلے مسجد جا کر دو رکعات نفل نماز ادا کرےـ
چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسجد گئے اور دورکعات نفل ادا کيا۔ اس کے بعد لوگ ان کے پاس آنے لگے۔ منافق لوگ آ کر جھوٹے جھوٹے عذر کرتے اور قسمیں کھاتے رہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے ظاہر حال کو قبول کرتے رہے اور باطن کو اللہ کے سپرد فرماتے رہے۔
حتی کہ حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ تعالی عنہ پیش ہوۓ۔ حضرت کعب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں "حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ناراضگی کے انداذ میں تبسم فرمایا ۔ میں نے عرض کیا: یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ نے اعۃراض فرمایا؟ میں اللہ کی قسم نہ تو منافق ہوں اور نہ مجھے ایمان میں تردد ہے۔ ارشاد فما یا کہ یہاں آؤ میرے قریب آ کر بیٹھو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں کس چیز نے روکا؟ کیا تم نے اونٹنیاں نہیں خرید رکھی تھیں؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر میں کسی دنیا دار کے پاس اس وقت ہوتا تو مجھے یقین ہے کے میں اس کے غصے سے معقول عذر کے ساتھـ خلاصی پا لیتا کہ مجھے بات کرنے کا سلیقہ اللہ تعالی نے عطا فرمایا ہے۔ لیکن آپ کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ اگر آج جھوٹ سے آپ کو راضی کر لوں تو قریب ہے کہ اللہ تعالی مجھ سے ناراض ہونگے اور اگر آپ سے صاف صاف عرض کردوں تو آپ کو غصہ آۓ گا لیکن قریب ہے کہ اللہ کی پاک ذات آپ کے عتاب کو زائل فرما دے گی۔ اس لیے سچ ہی عرض کرتا ہوں کہ واللہ مجھے کوئ عذر نہیں تھا اور جیسا فارغ اور وسعت والا میں اس زمانے میں تھا کسی زمانے میں بھی اس سے پہلے نہیں ہوا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس نے سچ کہا۔ پھر فرمایا: اچھا اب کھڑے ہو جاؤ تمہارا فیصلہ حق تعالی فرمائیں گے۔
میں وہاں سے اٹھا تو میری قوم کے بہت سے لوگوں نے مجھے ملامت کی کہ تم نے اس سے پہلے کوئ گناہ نہیں کیا تھا۔ اگر تم کوئ عذر کر کہ حضور سے استغفار کی درخواست کرتے تو حضور کا استغفار تمہارے لۓ کافی تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کوئ اور بھی ایسا شخص ہے جس کے ساتھ یہی معاملہ ہوا ہو؟ لوگوں نے بتلایا کہ دو شخصوں کے ساتھـ اور بھی یہی معاملہ ہوا انہوں نے بھی گفتگو کی جو تم کی اور یہی جواب ان کو ملا جو تم کو ملا۔ ایک ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالی عنہ دوسرے مرارۃ بن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ ۔ حضور اقدس نے ہم تینوں سے بولنے کی ممانعت بھی فرما دی کہ کوئ شخص ہم سے کلام نہ کرے۔
حضرت کعب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضور کی ممانعت پر لوگوں نے ہم سے بولنا چھوڑ دیا اور ہم سے اجتناب کرنے لگے۔ اور گویا دنیا ہی بدل گئ۔ حتی کہ زمین باوجود اپنی وسعت کہ مجھے تنگ معلوم ہونے لگی۔ سارے لوگ اجنبی معلوم ہونے لگے۔ غرض ہم لوگوں نے پچاس دن اسی حال میں گزارے۔ میرے دونوں ساتھی تو شروع ہی سے گھروں میں چھپ کر بیٹھـ گۓ تھے۔ میں سب میں قوی تھا۔ چلتا پھرتا، بازارمیں جاتا۔ نماز میں شریک ہوتا، مگر مجھ سے بات کوئی نہ کرتا۔ حضور کی مجلس میں حاضر ہو کر سلام کرتا اور بہت غور سے خیال کرتا کہ حضور کے لب مبارک جواب کے لیے ہلے یا نہیں۔ نماز کے بعد حضور کے قریب ہی کھڑے ہو کر نماز پوری کرتا اور آنکھیں چرا کر دیکھتا کہ حضور مجھے دیکھتے بھی ہیں یا نہیں۔ جب میں نماز میں مشغول ہوتا تو حضور مجھے دیکھتے اور جب میں ادھر متوجہ ہوتا تو آپ منہ پھیر لیتے اور میری جانب سے اعتراض فرما لیتے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تبوک پہنچ کر دریافت فرمایا کہ کعب رضی اللہ تعالی عنہ نظر نہیں آرہے۔ کیا بات ہوئ؟ ایک صاحب نے کہا "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کو اپنے مال و جمال نے روکا۔" حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ غلط کہا۔ ہم جہاں تک سمجھتے ہیں وہ بھلا آدمی ہے۔"
اس حدیث کی روشنی میں امام النووی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ صحابی کی مثال سے صاف واضع ہے کہ جب آپ کے سامنے کسی کی غیبت کی جاۓ تو چپ نہیں رہنا چاہیۓ بلکہ اس کو بتانا چاہیۓ کہ یہ غلط بات ہے اور مسلمان کا شیوہ نہیں۔ ہمیں معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کا راستہ اپنانا چاہیۓ۔
اللہ تعالی حضرت کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی کیفیت کچھـ اس طرح بیان کرتے ہیں" جب تک زمین ان پر تنگ نہ ہو گئ۔۔" تو آپ اگر غور کریں تو بہت سے ایسے لوگ نظر آئیں گے جن کے پاس دنیا کی ہر دولت ہونے کے باوجود سکون نہیں ہے۔ اس کی وجہ اللہ کے بتلاۓ ہوۓ راستے سے بھٹکنا ہے۔
چونکہ وہ جنگ میں شریک نہیں ہوۓ، تو اللہ تعالی بتاتے ہیں کہ کیسے سب کچھـ ان کے لیے تنگ ہو گیا۔
لیکن اس کے برعکس ایک ایسا شخص جس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت ہے جھونپڑی میں بھی بہت مطمئن زندگی گزار سکتا ہے۔ اس کے لیے جھونپڑی بھی جنت ہے کیونکہ وہ اللہ کے دیے پر راضی ہے۔
حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں "غرض یہی حالات گذرتے رہے اور مسلمانوں کا بات چیت بند کرنا مجھ پر بہت ہی بھاری ہو گیا تو میں ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی دیوار پر چڑھا۔ میں نے اوپر چڑھ کر سلام کیا۔ انہوں نے جواب نہ دیا۔ میں نے ان کو قسم دے کر پوچھا کہ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ مجھے اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے۔ انہوں نے اس کا جواب نہ دیا۔ میں نے دوبارہ قسم دی اور دریافت کیا وہ پھر بھی چپ رہے۔ میں نے تیسری مرتبہ پھر قسم دے کر پوچھا انہوں نے کہا "اللہ جانے اور اس کا رسول۔" یہ کلمہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو نکل گۓ اور وہاں سے لوٹ آیا۔
اسی دوران میں ایک مرتبہ حضرت کعب رضی اللہ تعالی عنہ کا گزر مدینہ منورہ کے بازار سے ہوا۔ ادھر انہوں نے ایک تاجر کو یہ کہتے ہوۓ سنا کہ کوئی کعب بن مالک کا پتہ بتا دو۔ وہ کہتے ہیں لوگوں نے اس کو میری طرف اشارہ کر کہ بتایا وہ میرے پاس آیا اور غسان کے کافر بادشاہ کا خط مجھے لا کر دیا۔اس میں لکھا ہوا تھا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ساتھی نے تم سے منہ موڑ لیا ہے، تمہیں اللہ ذلت کی جگہ نہ رکھے اور نہ ضائع کرے، تم ہمارے پاس آجاؤ ہم تمہاری مدد کریں گے۔ کعب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ خط پڑھ کر انا للہ پڑھی کہ میری حالت یہاں تک پہنچ گئ ہے کافر بھی مجھ میں طمع کرنے لگے اور مجھے اسلام سے ہٹانے کی کوششیں ہونے لگیں۔ یہ ایک اور مصیبت آئی اور اس خط کو لے جا کر میں نے ایک تنور میں پھونک دیا۔
چالیس روز بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قاصد میرے پاس حضور کا یہ ارشاد لے کر آیا کہ اپنی بیوی کو بھی چھوڑ دو میں نے دریافت کیا کہ کیا منشاء ہے اس کو طلاق دے دوں؟ کہا نہیں بلکہ علیحدگی اختیار کر لو۔ اور میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی ان ہی قاصد کی معرفت یہی حکم پہنچا۔
ہلال بن امیہ کی بیوی حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئيں اور عرض کیا کہ ہلال بالکل بوڑھے شخص ہیں کوئی خبرگیری کرنے والا نہ ہو گا۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں کچھ کام کاج ان کو کردیا کروں۔ حضور نے فرمایا مضائقہ نہیں لیکن صحبت نہ کریں۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس چیز کی طرف تو ان کو میلان بھی نہیں لیکن جس روز سے یہ واقعہ پیش آیا آج تک ان کا وقت روتے ہی گذر رہا ہے۔ کعب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں مجھـ سے بھی یہی کہا گیا کہ ہلال کی طرح تم بھی اگر بیوی کی خدمت کی اجازت لے لو تو شاید مل جاۓ۔ میں نے کہا میں جوان ہوں نہ معلوم مجھے کیا جواب ملے اس ليۓ جرت نہیں کرتا۔
غرض اس حال میں دس روز اور گزرگۓ۔ حتی کہ ہم سے بات چیت، میل جول چھوٹے ہوۓ پورے پچاس دن ہو گۓ۔ پچاسویں دن کی صبح کی نماز اپنے گھر کی چھت پر پڑھـ کر میں نہایت غمگین بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک پہاڑ کی چوٹی پر سے ایک شہسوار دوڑتا ہوا آیا اور زوردار ندا کی : اے کعب خوشخبری ہو تم کو۔ کعب کہتے ہیں میں اتنا ہی سن کر سجدے میں گر گیا اور خوشی کے مارے رونے لگا اور سمجھا کہ تنگی دور ہو گئ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد ہماری معافی کا اعلان فرمایا۔ میں جو کپڑے پہن رہا تھا وہ نکال کر میں نے بشارت دینے والے کی نذر کر دی۔
اکثر مجھے شیخ ابن العثيمین رحمت اللہ علیہ کا خیال آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حج کے دوران اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جاۓ اور اس سے کہا جاۓ اللہ سے معافی مانگ لو، کفارہ کوئی نہیں ہے، تو وہ جواب دے گا "اچھا؟ بس معافی مانگنی ہے؟ یہ تو کوئ مسئلہ ہی نہیں ہے۔" لیکن آپ دیکھیں کہ صحابہ کرام کیسے اللہ سے معافی مانگتے، ان کا ایک ایک پل اللہ کی مغفرت اور رحمت کی آس میں گزرتا۔
جب کعب رضی اللہ تعالی عنہ مسجد نبوی میں داخل ہوۓ تو وہ تمام لوگ جو خدمت اقدس میں حاضر تھے ان کی طرف بھاگے۔ سب نے ان کو اللہ کی جانب سے معافی ملنے پر ان کو مبارکباد دی۔ درحقیقت یہ ایسی چیز ہے جس پر انسان کو ضرور مبارکباد ملنی چاہیۓ۔ دنیا کی کوئی بھی نعمت اللہ کی معافی سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی۔
مسجد داخل ہونے پر مہاجرین میں سے صرف ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ آگے بڑھے اور کعب رضی اللہ تعالی عنہ کو مبارکباد دی اور مصافحہ کیا۔ بقول کعب رضی اللہ تعالی عنہ کہ "واللہ ابو طلحہ کا ميرے سے اس طرح ملنا میں کبھی نہیں بھول سکتا۔"
وہ کہتے ہیں " میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں جا کر سلام کیا تو چہرہ انور کھل رہا تھا۔ وہ فرمانے لگے" جس دن سے تمہاری ماں نے تمہیں جنا ہے اے دن سے آج تک یہ تمہارے لیے سب سے خوشی کا دن ہے"
حضرت کعب رضی اللہ تعالی عنہ مسکراۓ اور پوچھا "یا رسول اللہ یہ معافی آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالی کی طرف سے؟" اس کے جواب میں آپ کہنے لگے " بےشک یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔"
حضرت کعب رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ میری توبہ کی تکمیل یہ ہے کہ میری جائداد جو ہے وہ سب اللہ کے راستے میں صدقہ ہے۔ حضور نے فرمایا کہ اس میں تنگی ہو گی۔ کچھـ حصہ اپنے پاس رہنے دو۔ میں نے عرض کیا کہ بہتر ہے کہ خیبر کا حصہ رہنے دیا جاۓ۔
اس کے بعد حضرت کعب رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے ، وہ سبق جو ہم سب کو حاصل کرنا چاہیۓ، "مجھے سچائی ہی نے نجات دی، اس لیے میں نے عہد کر لیا کہ میں ہمیشہ سچ ہی بولوں گا۔"
جہاں تک ان لوگوں کی بات ہے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جھوٹ بولا، اللہ تعالی نے کئی آیات میں ان کا ذکر کیا ہے۔ سورۃ المنافقین سمیت دیگر سورۃ میں آتا ہے" بےشک! وہ نجس ہیں! وہ لوگ جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جھوٹ بولا ان کا انجام جہنم ہے- یہ بدلہ ہے اس کا جو وہ کرتے رہے۔" اللہ تعالی ان آیات میں مزید کہتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کو اکساتے ہیں اور کہتے ہیں "ہمارا پیچھا چھوڑ دو"۔ سو اللہ فرماتے ہیں" ان کو چھوڑ دو، یہ غلیظ ہیں اور ان کا انجام جہنم ہے۔" اور اللہ تعالی کو ان سے شدید نفرت ہے۔
حضرت کعب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں "یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جھوٹ بولا۔ جو لوگ سچ پد ڈٹے رہے ،کعب بن مالک اور ان کے دو ساتھی، ان کو اللہ سبحان و تعالی نے معاف کیا۔ اگلی آیت میں اللہ فرماتے ہیں" اور اللہ سبحان و تعالی نے معاف کیا ان تینوں کو جو جنگ (تبوک) میں شریک نہیں ہوۓ۔"
اللہ سبحان و تعالی فرماتے ہیں " اے ایمان والوں! اللہ سے دڑتے رہو، اور راستبازوں کا ساتھ دیتے رہو۔"
میری عزیز بہنوں اور بھایئوں، یہ کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کا قصہ ہے۔اس قصے کو ہمیں وقتا فوقتا پڑھتے رہنا چاہیۓ کہ اس کے ہر جزو میں مسلمانوں کے لیے سبق ہے۔ جس طرح کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے ان حالات میں گھر جانے کے بعد جس طرح عمل کیا صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں رسول اللہ کے امتی ہونے کے ناتے کن کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیۓ۔
جھوٹ: جھوٹ کا شمار گناہ کبیرہ میں ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ گناہ کبیرہ میں بھی ایک بڑا گناہ ہے کیونکہ اسکی وجہ سے ایک شخص کئ گناہ کر بیٹھتا ہے۔ علماء کے خیال کے مطابق جب حضور اکرم کے متعلق جھوٹ (حلال کو حرام اور حرام کو حلال) بولا جاۓ تو یہ کفر تک لے جاتا ہے۔امام النووی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب الاذکار میں کہتے ہیں کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں دیکھا جاۓ تو انسان جو سب سے مکروہ گناہ کر سکتا ہے وہ جھوٹ بولنا ہے۔اس گناہ کو چھوڑنے کے لیے اتنا ہی کافی کہ رسول اللہ فرماتے ہیں " منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔۔۔۔۔ اگر بولے تو جھوٹ بولے۔" اس حدیث کی روح سے جھوٹ بولنے والا منافق ٹھہرا۔ مومن جو اللہ اور رسول پر ایمان لایا، اسکے لیے اتنا ہی جاننا کافی ہے۔ اگر کؤئ شخص جھوٹی بات کرنا چاہے تو اس کو یاد رکھنا چاہیۓ کہ یہ منافقت کی نشانی ہے۔
ایک اور حدیث حضرت عبداللہ ابن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا صدق اور راستبازی انسان کو پرہیزگار بناتی ہے۔ اگر آپ کسی اچھے مسلمان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں یا اچھا مسلمان بننا چاہتے ہیں تو رسول اللہ کے فرمان کے مطابق راستگوئی اچھا مسلمان بننے میں مدد دیتی ہے، جو آپ کو پرہیزگار بناتی ہے۔ یہی پرہیزگاری جنت تک لے جاتی، بےشک ہم سب جنت ہی جانا چاہتے ہیں۔ تو گویا حضور اکرم نے ہمیں جنت کا راستہ بتایا ہے جو راستبازی پر مبنی ہے۔ حدیث میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک سچا شخص مرد ہو یا عورت ہمیشہ جھوٹ سے بچ کر سچ بولنے کو ترجیح دے گا حتی کہ اسکا نام اللہ تعالی کے پاس صادق (ہمیشہ سچ بولنے والا) لکھا جاۓ۔ اور یہی انجام ہم سب کو چاہیۓ کہ اللہ تعالی خود کہیں کہ فلاں فلاں شخص راستباز ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ان لوگوں میں سرفہرست حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ کیونکہ وہ ہمیشہ سچ بولتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، سچ سننا چاہتے ہیں، جو ہمیشہ سچ جانتے ہیں غرضیہ کہ آپ کی زندگی ہمیشہ سچ کے گرد گھومتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جھوٹ بولنا اللہ کی حکم عدولی اور نافرمانی ہے۔ یہ حکم عدولی اور نافرمانی انسان کو جہنم کا اہل بناتی ہے۔ ایک شخص جب جھوٹ بولتا ہے تو اس کو سچ ثابت کرنے کے لیے اسکو جھوٹ در جھوٹ بولنے پڑتے ہیں یہاں تک کہ اس کا نام اللہ تعالی کے پاس جھوٹے کی حیثیت سے لکھا جاتا ہے۔
آخر میں میں چند باتیں آپ کو ذہن نشین کروانا چاہتا ہوں (تاکہ ہم سب ان سے فائدہ اٹھائ تاکہ انسان زندگی کے ہر شعبہ میں راستگو ثابت ہو جاۓ۔
1۔ جب بھی کؤئ شخص جھوٹ بولنے لگے ، جھوٹ خالی الفاظ سے نہیں ہوتا، بلکہ اشارتا" بھی ہو سکتا ہے۔اگر کؤئ شخص آپ سے پوچھے کہ کیا آپ نے ایسا کیا؟ اور جواب میں آپ کؤئ اشارہ کریں تو آپ اپنے عمل سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ یا کوئی شخص کسی اور کے نام سے کسی کو خط لکھے یا کمپیوٹر پر کسی اور کے نام سے کسی کے ساتھـ بات کرے یا اپنے بارے میں کچھـ غلط بتاۓ ہو ایسے شخص کو یہ جان لینا چاہیۓ کہ وہ گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس کو یہ نہیں بھولنا چاہیۓ، جیسا کہ امام النووی نے کہا کہ جھوٹ منافقت کی نشانی ہے۔
2۔ دوسرا، ہمیں يوم القیامت پر اپنا ایمان مضبوط کرنا چاہیۓ۔ جب کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو یہ اس کے ایمان کی کمزوری ہے، وہ یوم جزا پر ایمان نہیں رکھتا۔ اگر وہ ایمان رکھتا تو اس کا سچ اس دن پریشانی سے بچا لیتا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں " یہ یوم جزا و سزا کا ہے۔اس دن جو سچ انہوں نے کہا اسکا انعام انہیں دیا جاۓ گا۔"
خلیفہ ھشام بن عبدل مالک کے دور میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر قرآن پاک ميں ہے جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ پر بہتان لگایا گیا۔ ایک جانے پہچانے منافق نے یہ افواہ اڑائی لیکن ھشام ابن عبدل مالک کا خیال یہ تھا کہ یہ جھوٹ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے شروع کیا۔ چنانچہ اس نے اپنے دربار میں علماء کو بلایا کہ پتہ چلایا جا سکے کہ یہ بہتان شروع کرنے والا کون ہے۔ جواب میں علماء کہتے "عبداللہ ابن عبعید" جواب میں خلیفہ کہتا " غالبا یہ علی تھے۔" اس کے جواب میں عالم یہ سوچ کر چپ ہو جاتا کہ امیر المومینین تو بہتر ہی جانتے ہونگے۔ آخرکار خلیفہ نے ایک دن امام الظہری کو دربار میں بلایا۔ یہاں ہم علماء کے اختیارات کا انداذہ لگایئں گے۔خلیفہ نے امام صاحب سے پوچھا "یہ بہتان کس نے لگایا تھا؟" انہوں نے کہا "عبداللہ ابن ععید نے" خلیفہ کہنے لگا " تم جھوٹ کہتے ہو یہ علی تھے۔" یہ سنتے ہی امام رحمت اللہ طیش میں آگۓ کہ ان کو جھوٹا کہا گیا ہے۔انہوں نے کہا" میں نے جھوٹ بولا؟ کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں۔۔۔۔ (یہ انگریزی میں گالی ہے) تمہاری یہ جرت کیسے ہوئی کہ تم مجھے جھوٹا کہو؟؟؟ یہ بات واضح الفاظ میں لکھی جانی چاہیۓ تاکہ سب کو پتہ چلے کے ہمارے علماء کیسے تھے۔ وہ کہنے لگے "اگر جنت سے بھی کوئی شخص سب کو کہے کہ جھوٹ بولنا حلال ہے تو میں تب بھی جھوٹ نہ بولوں گا۔" آپ انداذہ کریں کہ ان کو پتہ تھا کا کہ جھوٹ بولنا حرام ہے اور بےحد سنگین گناہ ہے پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ اگر جھوٹ بولنا حلال بھی ہو جاۓ تو تب بھی وہ جھوٹ نہ بولیں گے۔ تو بہنوں اور بھایئوں ہمیں اس بات پر خوب غور کرنا چاہیۓ۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا جو بند مٹھی میں کچھـ دبا کر اپنے بیٹے کو بلا رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تمہاری مٹھی میں کچھـ ہے جو تم اس کو دینا چاہتی ہو؟ اس نے کہا : میں اس کو کھجور دینا چاہتی ہوں۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " اگر تمہاری مٹھی میں کچھـ نہ ہوتا تو یہ تمہارے اعمال نامے میں "جھوٹ" لکھا جاتا۔" پس بچوں کے ساتھـ بھی کوئی چھوٹی سے چھوٹی حرکت یا جھوٹا مذاق جھوٹ بولنے میں شمار ہوتا ہے۔ اکثر انسان یہ سوچتے ہوۓ جھوٹ بولتا ہے کہ میں جھوٹ تو نہیں بول رہا میں تو بس مذاق کر رہا ہوں - بس مذاق۔ درحقیقت یہ جھوٹ ہے اور کوئی بھی چیز اس گھناؤنے گناہ کو حلال نہیں کر سکتی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں "افسوس ایسے شخص پر جو لوگوں کو ہنسانے کے لیۓ جھوٹ بولتا ہے۔" دراصل یہ شخص اس حدیث اور ممانعت کی کھلم کھلا نافرمانی کر رہا ہے۔ تو بہنوں اور بھایئوں یہ خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ جھوٹ سے ہر حال میں بچا جانا چاہيۓ۔
جھوٹ میں مکروہ ترین جھوٹ وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف کہا جاۓ۔ آپ نے اکثر ایسی ضعیف احادیث سنی ہونگيں جن کی کوئی سند نہیں۔ جیسے ایک شخص نے کہا " میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف جھوٹ نہیں بول رہا بلکہ ان کے لیے جھوٹ بول رہا ہوں۔" سبحان اللہ! جو بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے غلط کو صحیح کہتا ہے،اس کو نہیں بھولنا چاہیۓ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہماری ضرورت نہیں ہے دین کو مکمل کرنے کے لیے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں "اور آج ہم نے تمہارے لیے دین مکمل کر دیا۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر گز نہیں چاہتے کہ ہم یا آپ ان سے کوئی حدیث مروی کریں۔ اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں "تم میں سے جس نے میرے لیۓ جھوٹ بولا (یہ جانتے ہوۓ کہ وہ غلط حدیث مجھـ سے وابستہ کر رہا ہے) وہ جہنم میں داخل کر دیا جاۓ گا۔ اور وہ وہاں اپنا ٹھکانہ کر يگا۔" آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف یا ان کے لیے جھوٹ بولنے میں کؤئ فرق نہیں ہے۔ جھوٹ ہر حال میں جھوٹ ہی ہے۔
3۔ تیسرا، ہمیں یاد رکھنا چاہیۓ کہ سچ برلنے والے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نہ صرف اس شخص کو پسند کرتے ہیں بلکہ اس کا نام صدیق لکھتے ہیں اور اس کو جنت کا اعلی مقام ملتا ہے، جہاں وہ پیغمبروں ، اور حق بات کرنے والے لوگوں کے ساتھـ ہو گا۔ سچے انسان کو اللہ تعالی جنت کے ساتھـ ساتھـ دنیا میں بھی بابرکت زندگی سے نوازتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر دو شخص آپس میں کوئی معاہدہ کریں اور دونوں ایک دوسرے سے کچھـ نا چھپایئں تو ان کے اس کاروبار میں اللہ سبحان و تعالی برکت دے گا۔
پس انسان کو یہ نہیں سوچنا چاہیۓ کہ " اگر میں یہ بیچوں اور اس کے عیب چھپا دوں۔۔۔۔" نہیں! ہر چیز کے عیب کھل کر بیان کرنے چاہیۓ تاکہ اللہ کاروبار میں مزید برکت ڈالے۔ نا کہ انسان کو کوئی بات چھپانی چاہیۓ۔ فرض کریں کوئی گاڑی بیچنا چاہے اور وہ رنگ روغن کر کے عیب چھپا دے، تو یہ غلط ہے۔ گاہک کو صاف صاف بتانا چاہیۓ کہ اسمیں کیا کیا خوبی ہے اور کیا کیا خرابی ہے۔ اور اسی سچائی کی بنا پر اللہ کاروبار کو بابرکت بنا دیتا ہے۔
ہمیں اللہ سے دعا کرنی چاہیۓ (اور جھوٹ سے پناہ مانگنی چاہیۓ) ۔ بےشک سچائی بھی ہر اچھائی کی طرح اللہ سبحان و تعالی کی ہی طرف سے ہے سنن البیہقی میں یہ دعا ہے"اے اللہ ہمارے دلوں کو منافقت سے پاک کر دے، ہمارے اعمال کو نمود و نمائش سے پاک کر دے اور ہماری زبان کو جھوٹ بولنے سے روک دے۔"
پس یہ انداذہ ہوا کہ ہمیں ہمیشہ جھوٹ بولنے والے اور غیبت کرنے والے لوگوں کی بجاۓ راست باز لوگوں کے ساتھـ رہنا چاہیۓ۔ ہمارا ساتھـ کعب ابن مالک رضی اللہ تعالی عنہ اور انہیں کی طرح سچ بولنے والے لوگوں کے ساتھـ ہونا چاہیۓ۔ اللہ تعالی نے رہتی دنیا تک سب ایمان والوں کو حکم دیا " اے ایمان والوں! اللہ سے دڑتے رہو، اور راستبازوں کا ساتھ دیتے رہو۔"