• Receive a weekly success hadith from Muhammad Alshareef. Just type your name and email.
    Name:
    Email:


  • What is Khutbah.com?

    Khutnah.com is a non-profit website, denoted to muslims world wide and provided by AlMaghrib Institute. This website provides you with khutbahs written or translated by AlMaghrib Professors to be used in any Friday Prayer khutbah.

    Most khutbahs and articles on this website are provided in english and many other languages, including French, Spanish, German ...etc. (Please Check our language list for more details)


جب دوست ایک دوسرے کو دکھ پہنچاتے ہیں

محمد الشریف

ایک مرتبہ امام مالک نماز عصر کےبعد مسجد نبوی میں داخل ہوۓـ مسجد کے احاطے کی جانب بڑھے اور بیٹھ گۓـ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حکم ہےکہ جو شخص بھی مسجد میں داخل ہو، وہ دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کۓ بغیر نہ بیٹھےـ لیکن امام مالک کی راۓ میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےاس حکم کا جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے،زیادہ درجہ ہےـ اسی وجہ سے وہ اپنے شاگردوں کو، اگر وہ نماز عصرو مغرب کے درمیان مسجد میں داخل ہوں، تحیۃ المسجد ادا کرنے سے منع کرتے تھےـ

اس لمحہ جب امام مالک مسجد میں تحیۃ المسجد ادا کۓ بغیر بیٹھ گۓ، ایک جوان لڑکا ان کے پاس آیا اور سختی سے جھڑک کر کہنے لگا، "کھڑے ہوں اور دو رکعت پڑھیں"ـ امام مالک فرض شناسی کے ساتھ دوبارہ اٹھ کھڑے ہوۓ اور دو رکعت نماز ادا کرنے لگےـ امام مالک کے شاگرد انکے اس فعل پر حیران و پریشان بیٹھے تھےـ ' یہ کیا معاملہ ہے؟ کیا امام مالک نے اپنی راۓ بدل لی ہے؟ '

امام مالک جب اپنی نماز مکمل کر چکے، شاگردوں نے انکے گرد جھمگٹا بنا لیا اور ان سے انکے اس عمل کے بارے میں تحقیقات شروع کر دیںـ امام مالک نے جواب دیا،"نہ ہی میری راۓ بدلی اور نہ ہی میں اس سے پھرا جو میں نے اپنے شاگردوں کو سکھایاـ میں صرف اس بات سے خوفزدہ ہوا کہ اگر میں نے دو رکعت نماز ادا نہ کی،جیسا کہ مجھے اس لڑکے نے کہا، تو کہیں اللہ تعالی مجھے اس آیت میں نہ شامل کر دے"ـ

""اور جب ان سے کہا جاۓ تم رکوع کرو(نماز میں)، وہ رکوع نہیں کرتے"" (77:48)

امام احمد کی راۓ میں اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، ایک اور مسلئہ جس میں علماءکرام کی آراء میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ چند شاگردوں نے ان سے سوال کیا،"اگر آپکا واسطہ کسی ایسےشخص سے پڑے جو آپکے سامنے اونٹ کا گوشت کھاۓ اور نیا وضو کۓ بغیر نماز کی امامت کرے، تو کیا آپ اسکے پیچھے نماز پڑھ لیں گے؟" امام احمد نے جواب دیا،" کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں اس شخص کے پیچھے نماز ادا کرنے سے انکار کر دوں گا جو امام مالک اور سعید بن مسیب جیسا ہو ( انکامسلک رکھتاہو)؟"

اللہ تعالی نے انسانوں کو مختلف پیدا کیا ہے۔ یہ قدرت کا قانون ہےـ مختلف زبانیں، مختلف رنگ، مختلف ثقافت۔۔۔یہ فرق ظاہری سطح پر پایا جاتا ہے۔ باطنی سطح پر انسان کی تخلیق، علم و دانشوری اور تصورات کے فہم و ادراک کے بہت سے درجات پر مشتمل ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالی کے لامحدود اختیارات کی نشانیاں ہیں :

""اور اسکی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں کو اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کے مختلف ہونے میں،بیشک اس میں دانشمندوں کیلۓ نشانیاں ہیں"" (30:22)

انسانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے،بحث یہ نہیں ہےبلکہ بحث یہ ہے کہ باحیثیت مسلمان ایک انسان کو کس طریقے سے اختلاف راۓ کا سامنا کرنا ہے اور کسی ایسے شخص سےہمارا کیا رویہ ہونا چاہیے جس سے ہماری راۓ ناموافق ہو۔

اللہ تعالی نے ہمیں دین اسلام کی طرف لوگوں کو بلانے اور نصیحت کرنے کا حکم دیا ہے۔ بہت سے مسلمان اس مقصد کے حصول کیلۓ آنکھوں پر پٹی باندھ کر نکلتے ہیں، یہ نہ جانتے ہوۓ کہ راستہ کا تعین قرآن میں بھی موجود ہے۔ ناصرف یہ بلکہ قرآن پاک کی جس آیت میں اللہ تعالی نے لوگوں کو دین اسلام کی طرف بلانے اور نصیحت کرنے کا حکم دیا ہے،اسی آیت میں حکم بجا لانے کا طریقہ کار بھی بتا دیا ہے۔ مندرجہ ذیل آیت کو غور سے پڑھیں۔

تم اپنے رب کے راستہ کی طرف بلاؤ دانائی سے اور اچھی نصیحت سے اور ان سے ایسے بحث کرو جو سب سے بہتر ہو! (16:125)

فلسفیانہ باتوں میں الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حل سامنے ہے، واضح بھی اور آسان بھی لیکن اسکے لۓ جو توجہ کرنا چاہے۔

مندرجہ بالا آیت میں تین جزو ترکیبی بیان کۓ گۓ ہیں جن کا استعمال ایسے حالات میں کیا جانا چاہیے جب ہمیں کسی سے اختلاف را ۓ کا سامنا پیش آۓ۔وہ ذات جس نے ہمیں سچ کو پہچاننا سکھایا، اسی ذات باری نے سچ بولنے کا طریقہ بھی سکھایا :

حکمت کے ساتھ

بہترین ہدایت کے ساتھ، اور

بہترین طریقہ دلیل کے ساتھ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسوں نے ایک مرتبہ دوسروں کو نصیحت کرنے کے معاملہ میں حکمت کی بڑی خوبصورت مثال قائم کی۔ الحسن اور الحسین رضی اللہ عنھما ـ اپنی جوان عمری میں ـ ایک بزرگ کو غلط طریقہ سے وضو کرتے دیکھا۔ اکٹھے ان دونوں نے اس شخص کی توہین کۓ بغیر اسکو وضو کا صحیح طریقہ سکھانے کا منصوبہ بنایا، ایسے شائستہ انداز میں نصیحت جو اسکی عمر کے لحاظ سے موزوں ہو۔

اکٹھے وہ دونوں ان بزرگ کے پاس گۓ اور بلند آواز میں کہنے لگے، "میرا اور میرے بھائی کا اس بات پر اختلاف ہے کہ کون ہم میں سے بہتر طریقے سے وضو کرتا ہے۔ کیہ آپ ہمارے اس اختلاف میں منصف بننا پسند کریں گے تا کہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ کون ہم میں سے صحیح طریقے سے وضو کرتا ہے؟"

وہ شخص بڑی توجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسوں کو واضح انداز میں وضو کرتے ہوۓ دیکھتا رہا۔ وضو مکمل کر لینے کے بعد اس شخص نے ان دونوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا، "اللہ کی قسم، میں اس سے پہلے وضو کرنے کے صحیح طریقے سے لا علم تھا۔ آپ دونوں نے مجھے وضو کا صحیح طریقہ آدئیگی سکھا دیا ہے"۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حکمت دو طرح کی ہوتی ہے: اول، علم کی حکمت - حکمت علمیہ۔ اور دوسری، عمل کی حکمت – حکمت عملیہ۔

کچھ لوگوں کے پاس علم کی حکمت ہوتی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ دوسروں کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، انکو نصیحت کرتے ہیں تو انکے پاس عمل کی حکمت کی کمی پائی جاتی ہے۔ بسا اوقات یہ کمی ایک عام شخص کا '- حکمت علمیہ'کو رد کرنے کا باعث بنتی ہے۔

اسی علم کی حکمت کو، عمل کی حکمت کے بغیر سمجھانے کی کوشش کےبارے میں ایک واقعہ ملاحظہ کریں۔ ایک مرتبہ ایک بھائی صاحب مقامی مسجد میں نماز مکمل کرنے کے بعد ، اپنے دائیں اور بائیں بیٹھے لوگوں سے مصافحہ کرنے کے لۓ آگے بڑھے۔ انکے دائیں طرف بیٹھے شخص نے انکے ہاتھ پر مارا اور تنگ مزاجی سے کہا، "یہ سنت کا طریقہ نہیں ہے"۔ اس شخص نے جواب دیا، "اوہ معاف کیجۓ، کیا بدتمیزی اور بےعزتی کرنا سنت کا طریقہ ہے؟"۔

حکمت سے کام لینے کیلۓ حسب ذیل چیزیں مطلوب ہیں:

اخلاص

اول : اختلاف راۓ کی صورت میں ہماری نیت یہ ہونی چاہیے کہ ہم پورے خلوص کے ساتھ سچائی کا ساتھ دیں گے- ہماری نیت اللہ تعالی سے خالص ہونی چاہیے۔

ہمیں صرف اپنے دل کی نفرت اور حسد نکالنے کیلۓ اختلاف نہیں کرنا چاہیےاور نہ ہی کسی کو شرمندگی میں ڈالنے کیلۓ ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ""جو کوئی علم صرف مادہ پرست دنیا کی کوئی چیز وصول کرنے کیلۓ حاصل کرے - ایسا علم جس سے صرف اللہ کی رضا مطلوب تھی، وہ قیامت کے روز جنت کی خوشبو نہ پا سکے گا۔""

مہربانی اور نرمی

دوئم : اختلاف راۓ کی صورت میں حکمت سے کام لینے سے مراد یہ ہے کہ ہمیں مہربانی اور نرمی کی فضا سے باہر نہیں آنا چاہیے اور نہ ہی اپنے آپکو غصہ میں لانا اور آوازوں کو بلند کرنا چاہیے۔

فرعون کا شمار دنیا سے گزرے ہوۓ بدترین لوگوں میں سے ہوتا ہے۔ موسی علیہ اسلام کا شمار بہترین لوگوں میں سے ہوتا ہے۔ آئیں دیکھیں اللہ تعالی نے فرعون کو نصیحت کرنے کیلۓ موسی علیہ اسلام کو کیا طریقہ سکھایا۔ اللہ تعالی نے فرمایا :

""تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، بیشک وہ سرکش ہو گیا ہے۔ تم اسکو نرم بات کہو شاید وہ نصیحت پکڑ لے یا ڈر جاۓ""(20:43،44)

ایک دفعہ ایک شخص خلیفہ کے سامنے حاضر ہوا اور اسکی بعض حکمت عملی کی اصلاح کرنا چاہی۔ خلیفہ نے جواب دیا، " اللہ کی قسم! فرعون مجھ سے بھی زیا دہ برا شخص تھا اور اللہ کی قسم موسی علیہ اسلام تم سے زیادہ متقی اور پرہیزگار تھے۔ اسکے باوجود اللہ نے انکو حکم دیا۔۔۔["" تم اسکو نرم بات کہو شاید وہ نصیحت پکڑ لے یا ڈر جاۓ""(20:44)]

سوئم : دوسروں سے بحث ومباحثہ کرتے وقت حکمت سے کام لینے سے مراد صبروتحمل کا مظاہرہ کرنا اور نتائیج پر پہنچنے سے پہلے بات کو واضح کرنا ہے۔

امام احمد ایک حدیث اپنے راویوں سے روایت کرتے ہیں جسکی سند ابن عباس تک پہنچتی ہے جنھوں نے کہا،" "بنوسلیم کا ایک شخص رسول اللہ کے صحابہ کی جماعت کے پاس سے گزرا ۔ (جنگ کے دوران) اس شخص نے انکو 'اسلام و علیکم کہا۔ صحابہ کرام نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس شخص نے انکو 'اسلام و علیکم صرف دھوکا دینے کیلۓ کہا تاکہ وہ اپنے آپکو پکڑے جانے سے بچا سکے۔ لہذا انھوں نے اسکو گھیرے میں لے لیا اور ملحم بن جثامہ نے اسکو مار دیا۔ اس واقعہ کے بارے میں اللہ تعالی نے مندرجہ ذیل آیت اتاری :

""اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں (جہاد کیلۓ) سفر کرو تو تحقیق کر لیا کرو، اور جو تم کو سلام کرے اسے نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے، تم دنیا کی زندگی کا سامان چاہتے ہو، تو اللہ کے پاس بہت غنیمتیں ہیں، اس سے پہلے تم اسی طرح تھے تو اللہ نے تم پر احسان کیا، سو تحقیق کر لیا کرو، بیشک جو تم کرتے ہو اس سے اللہ خوب باخبر ہے۔""(4:94)

نرمی سے بولنا

چہارم : کبھی بھی نرم الفاظ کے بدلے سخت الفاظ کو نہ اپنائیے۔خاص طور پر جب معاملہ دوسرے مسلمان بھائیوں کیساتھ ہو۔

پرخلوص اور نرم الفاظ کی طاقت دیکھیۓ:

معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سب سے پہلے صفیر تھے۔ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد سے پہلے، معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اہل مدینہ کو اسلام کی دعوت دی اور لوگ دین اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گۓ۔

اس بات نے سعد بن عبادہ کو جو مدینہ کے ایک قبیلے کا سردار تھا، سخت اشتعال دلایا ۔ اس نے اپنی تلوار نیام میں ڈالی اور معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا سر اتارنے کیلۓ چل کھڑا ہوا۔ جب معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ سے اسکا سامنا ہوا تو اس نے دھمکی دی اور کہا، "اپنی فضول بکواس بند کرو نہیں تو تم اپنے آپکو مردہ پاؤ گے"۔

معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے جس اخلاص سے اس سے بات کی، وہ ہم سب کیلۓ سبق ہے۔ انکے سامنے کھڑا یہ شخص صرف سخت کلامی اور جہالت سے ہی نہیں کام لے رہا تھا بلکہ وہ انکا گلا بھی کاٹ دینا چاہتا تھا۔

معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا، " آپ ذرا بیٹھیں اور میری بات چند لمحوں کیلۓ سنیں۔اگر آپکو میری بات پسند آ جائے تو آپ مان لیں اور اگر پسند نہ آۓ تو ہم اس بات سے رک جائیں گے۔"

معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے ان سے اللہ اور اسکے رسول کے بارے گفتگو کی یہاں تک کے سعد بن عبادہ کا چہرہ پورے چاند کی طرح چمکنے لگا اور کہنے لگے، "جب کوئی اس دین میں داخل ہونا چاہے تو کیا کرے؟"۔ معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے بتانے کے بعد سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا،"میرے پیچھے ایک آدمی ہے۔ اگر اس نے تم دونوں کا کہا مان لیا تو مدینہ میں کوئی گھر ایسا نہ رہے گا جو مسلمان نہ ہو، سعد بن معاذ"۔

جب سعد بن معاذ نے سنا کہ کیا ہوا ہے تو وہ شدید غصہ میں آ گۓ۔ وہ اپنے گھر سے اس نااتفاقی اور نزاع کو ختم کرنے کیلۓ، معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ نامی شخص کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلے۔وہ معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے سامنے آۓ اور اعلان کیا، "تم اس دین کے بارے میں بتانا چھوڑ دو نہیں تو تم اپنے آپکو مردہ پاؤ گے"۔

معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا، " آپ ذرا بیٹھیں اور میری بات چند لمحوں کیلۓ سنیں۔اگر آپکو میری بات پسند آ جائے تو آپ مان لیں اور اگر پسند نہ آۓ تو ہم اس بات سے رک جائیں گے۔"

معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے ان سے اللہ اور اسکے رسول کے بارے گفتگو کی یہاں تک کے سعد بن معاذ کا چہرہ پورے چاند کی طرح چمکنے لگا اور کہنے لگے، "جب کوئی اس دین میں داخل ہونا چاہے تو کیا کرے؟"۔

دیکھیے نرم الفاظ کا کمال۔ اس رات سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اپنے قبیلے میں واپس گۓ اور انہوں نے کہا، "تم لوگوں کا سب کچھ مجھ پر حرام ہے جب تک تم لوگ اسلام نہ لے آؤ۔

اس رات مدینہ کا ہر گھر سے لا الہ الا اللہ کے ساتھ سویا۔۔۔۔یہ سب کچھ صرف نرم الفاظ کی بدولت ہوا۔

حصہ دوئم : جیتتا کون ہے؟

معاویہ بن حکم السلامی، صحراو بیاباں سے سفر کر کے مدینہ پہنچے ۔ وہ اس بات سے لا علم تھے کہ نماز کے دوران بات کرنا منع ہے۔وہ بیان کرتے ہیں، "اس دوران جب کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امامت میں نماز پڑھ رہا تھا،ایک شخص نے چھینک ماری۔میں نے کہا،"یرحمک اللہ" (اللہ تم پر رحم کرے)۔ لوگ مجھے گھورنے لگے تو میں نے کہا، "میری ماں مجھے کھو بیٹھے! تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو میری طرف دیکھ رہے ہو؟"۔ وہ اپنے ہاتھ اپنی ران پر مارنے لگے۔جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کر رہے ہیں، میں نے بولنا بند کر دیا۔(یعنی میں انکو جواب دینا چاہتا تھا لیکن میں خاموش رہا)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز مکمل کر لی۔ میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں،اس سے پہلے کبھی بھی میں نے ان سے بہتر معلم نہیں دیکھا - آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میری غلطی پر نہ مجھے جھڑکا یا مارا یا مجھے شرمندہ کیا ۔ - آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صرف یہ کہا ' نماز میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ نماز صرف تسبیح، تکبیر اور قرآن کی قرات ہے'۔ (صحیح مسلم،عبدالباقی، نمبر 537)

اسلام ہمیں ایک دوسرے سے اختلاف کی صورت میں طریقہ کار سکھاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اختلاف ہرگز نہیں ہونا چاہیے اور ہر طرح کی ناموافق راۓ اور بحث ومباحثہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔نہیں، یہ غلط مفروضہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ قرآن اور سنت واضح طور یہ بتاتے ہیں کہ غلطی کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔

لوگوں کو سیدھے راستہ پر چلنے میں مدد کرنا واقعی میں ایک دینی فریضہ ہے، مخلص نصیحت۔

ہم دیکھتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ سے، جو نابینا تھے، منہ پھیرا تو اللہ تعالی نے قرآن میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس عمل کی اصلاح کی :

""تیوری چڑھائی اور منہ موڑ لیا کہ اسکے پاس ایک نابینا آیا، اور آپ کو کیا خبر شاید وہ سنور جاتا یا نصیحت مانتا تو نصیحت کرنا اسے نفع پہنچاتا""۔(80:1،2،3،4)

جب حاطب بن بلطح رضی اللہ عنہ نے قریش کے کفار کو خط لکھنے کی غلطی کی جس میں انھوں نے کفار قریش کو اس سمت سے آگاہ کیا جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انکے خلاف جنگ کرنے کیلۓ لشکر لا رہے تھے۔ اللہ تعالی نے مندرجہ ذیل آیت اتاری :

""اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔۔۔""(60:1)

پس اس سے ہم نے یہ سیکھا کہ غلطی کی اصلاح ضروری ہے۔تاہم اصلاح کا کیا طریقہ ہے، یہ معاملہ ہمارے لۓ غور طلب ہے۔

جب بھی مسلمان بحث ومباحثہ میں پڑتے ہیں تو ایسا نظر آتا ہے کہ گویا ہر جماعت یہ عہد لۓ ہوۓ ہے کہ " میں ہر صورت جیتوں گا اور تم ہر صورت میں ہارو گے"۔تاہم سنت کا بغور مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عمل ایسا نہ تھا۔ مندرجہ ذیل امثال پر غور کریں :

"میں ہارا اور تم جیتے "

ایک بدو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا، "مجھے اس (مال) میں سے دو جو اللہ نے تم کو دیا ہے،نہ تمھاری ماں کے مال سے ، نہ تمھارے باپ کے مال سے"۔ صحابہ کرام بدو کی اس حرکت پر بھڑک اٹھے اور اسکو سبق سکھانے کیلۓ آگے بڑھے۔ رسول اللہ نے حکم دیا کہ اس شخص کو چھوڑ دیا جا‌ۓ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسکو ہاتھ سے پکڑ کر اپنے گھر لے گۓ، دروازہ کھولا اور کہا، " جو بھی تم چاہو لے جاؤ اور جو تم چاہو چھوڑ جاؤ "۔ اس بدو نے یہی کیا اور جب وہ اپنا کام ختم کر چکا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سے پوچھا ، "کیا میں نے تمہارا اکرام کیا ؟"۔ اس نے جواب دیا، " اللہ کی قسم! ہاں۔اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ"۔

جب صحابہ کرام تک اس بدو کا حال بدل جانے کی خبر پہنچی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے کہا، ""میری، تم لوگوں کی اور اس بدو کی مثال اس شخص کی سی ہے جسکا اونٹ بھاگ کھڑا ہو۔ مقامی لوگ اس اونٹ کو پکڑنے کیلۓ اس کے پیچھے چیختے چلاتے بھاگ رہے ہوں،اسکو اور دور ہانکتے جائیں۔ اونٹ کا مالک چلاۓ، "مجھے اور میرے اونٹ کو چھوڑ دو۔ میں اپنے اونٹ کو زیادہ بہتر جانتا ہوں"۔ پھر وہ اپنے ہاتھ میں گھاس پھوس لے کر اونٹ کے آگے آگے پھیلاۓ، یہاں تک کہ اونٹ خوشی سے اسکے پاس آ جاۓ'۔

' اللہ کی قسم! اگر میں اس بدو کو تمھارے ہاتھوں میں چھوڑ دیتا ، تم لوگ اسکو مارتے، اسکو زخمی کرتے، وہ اسلام قبول کۓ بغیر چلا جاتا اور آخر کار دوزخ کی آگ کا لقمہ بن جاتا""۔

""میں جیتا اور تم ہارے""

ایک مسلمان کا حالات کا سامنا کرتے ہوۓ ہر بار معذرت خواہ رویہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب سچ ضرور کہا جانا چاہیے، خوشامد کی کوئی ضرورت نہیں۔

جب ایک مخزومی عورت، جسکا تعلق امیر گھرانے سے تھا، چوری کرتی ہے۔ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس اسکی سفارش لۓ ہوۓ آۓ کہ اس عورت کی سزا منسوخ کر دی جاۓ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سخت ناراض ہوۓ اور منبر پر کھڑے ہو کر اعلان فرمایا : "' اللہ کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اسکا ہاتھ بھی کاٹ دیتا""۔

خوشامد کی کوئی جگہ نہیں۔سچ کیلۓ کھڑا ہونا ضروری ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں اختلاف راۓ کی صورت میں وہ بہترین طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہیۓ جسکی ہم نے اوپر بات کی۔

""میں جیتا اور تم جیتے""

ہمیشہ کسی کا ہارنا ضروری نہیں ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اختلاف راۓ رکھنے والوں کی راۓ کا احترام کیا ہے۔

جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیصر روم کو اسلام کی دعوت دی تو خط میں لکھا، "" مسلمان ہو جاؤ ، سلامتی پا لو گے، اللہ تعالی تمہیں دگنا اجر دے گا""۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ 'ہتھیار ڈال دو یا مار دیۓ جاؤ گے! ایسا کچھ بھی نہ کہا۔

مسلمان ہو جاؤ ، تم جیت جاؤ گے۔ یہی نہیں بلکہ تمہاری جیت دگنی ہو گی۔

میں اپنی بات، ہمارے لۓ مثالی نمونہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس سنہری مثال پر ختم کرتا ہوں جو ہمیں دوسرے مسلمانوں کیساتھ بہترین رویہ استوار رکھنے کا سبق دیتی ہے۔

ایک دفعہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دوسرے صحابی کے ساتھ ایک درخت کے معاملہ میں بحث و تکرار شروع ہو گئ۔ بحث کے دوران ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انکو ایسی بات کہہ دی جو وہ کہنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے نہ گالی دی تھی نہ کسی کی عزت اچھالی اور نہ ہی کسی میں کوئی نقص نکالا تھا۔ صرف کچھ ایسا کہا جس سے دوسرے صحابی کے احساسات کو دکھ پہنچا-

اسی وقت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوۓ انکو کہا کہ ""مجھے بھی جواب میں یہی کہو ""۔ صحابی نے کہا، "" میں آپکو یہ جواب نہیں دونگا""۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا'" مجھے بھی جواب میں یہی کہو نہیں تو میں رسول اللہ کو شکایت کر دونگا""۔ صحابی نے یہ جواب دینے سے انکار کر دیا اور اپنے راستے چل پڑے۔

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گے اور تمام قصہ بیان کیا اور ان صحابی کا جواب بھی بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان صحابی کو بلایا اور پوچھا، "" کیا ابوبکر نے تم سے ایسا اور ایسا کہا؟"" ان صحابی نے جواب دیا، ""ہاں""۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا، "تم نے کیا جواب دیا؟"۔ انھوں نے کہا، "" میں نے انکو واپس جواب نہیں دیا""۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، "اچھا کیا، ابوبکر کو واپس جواب نہ دینا(ابوبکر کو دکھ نہ پہنچانا)۔ بلکہ کہو ""اللہ آپکو معاف کرے ابوبکر""۔ وہ صحابی ابوبکر کی جانب مڑے اور کہا، "" اللہ آپکو معاف کرے ابوبکر""۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روتے ہوۓ واپس اپنے رستے چل دیۓ۔

آئیے ہم پختہ عہد کریں کہ ہم اس فضا کو دوبارہ بحال کریں گے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپکے صحابہ سانس لیتے تھے، رحم، محبت اور بھائی چارہ کی فضا۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~