کشتی ڈوبنے اس سے پہلےکہ
محمد الشریف
اصحاب السبت بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والا ایک قبیلہ تھا جس کے لوگ دریاۓ شور کے قریب آباد تھے ۔ اس قوم کی آزمائش یوم السبت تھی یعنی ان پر لازم کیا گیا کہ ہفتے کے روز دنیاداری چھوڑ کر تمام دن اللہ سبحان و تعالی کے لیۓ وقف کر دیں۔ بستی والے پورے ہفتہ مچھلیوں کا شکار کرتے تھے، پر گنی چنی ہی مچھلیاں ہاتھـ آتیں ۔ البتہ ہفتے کے روز جب شکار ممنوع تھا تو خوب مچھلیاں پانی کی سطح پر ظاہر ہوتیں۔ اللہ سبحان و تعالی کی طرف سے ان لوگوں پر یہ شدید آزمائش تھی!!
"اور آپ ان لوگوں سے، اسی بستی والوں کا جو کہ دریا کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال پوچھیۓ! جب کہ وہ ہفتے کے بارے میں حد سے نکل رہے تھے جب کہ ان کے ہفتے روز تو ان کی مچھلیاں ظاہر ہو ہو کران کے سامنے آتی تھیں، اور جب ہفتے کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں، ہم ان کی اس طرح پر آزمائش کرتے تھے اس سبب سے کہ وہ بےحکمی کیا کرتے تھے۔"
سورۃ الاعراف(7): 163
قصبے والوں کے ایک گروہ نے اللہ سبحان و تعالی کی عدول حکمی کرتے ہوۓ ایک منصوبہ ترتیب دیا۔ وہ جمعے کے دن جال بچھا دیتے اور اتوار کے روز آ کر نکال لیتے۔ اس طرح ہفتے کے روز آنے والی تمام مچھلیاں پکڑلی جاتیں۔
اس عدول حکمی کی بنا پر بنی اسرائیل کا یہ قبیلہ دو گروہ میں تقسیم ہوگیا۔ ایک گروہ نے خطاکاروں کو راہ راست پر لانے کا عزم کر لیا اور ان کو اس برائی کے انجام سے آگاہ کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ پس نیکی کا حکم دیتے رہے اور برائی سے روکتے رہے۔
اس کے برعکس، دوسرا گروہ نصیحت کرتے کرتے اثرونفع سے مایوس ہوکر اپنے آپ میں مشغول ہوگیا اور خیال کیا کہ اللہ تعالی خود ہی انجام لے لیں گے۔
"اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ بالکل ہلاک کرنے والا ہے یا ان کو سخت سزا دینے والا ہے؟"
ذرا غور سے سنیۓ کہ اللہ کی طرف بلانے والوں نے کیا کہا: "انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے رو بروح عذر کرنے کے لیے اور اس لیے کہ شاید یہ ڈر جایئں۔"
سورۃ الاعراف:164
اطاعت خداوندی کی طرف دعوت دینے والا یہ گروہ دو وجوہات کی بناء پرمستقل مزاج رہا:
(1) پہلی وجہ یہ کہ ہمیں اللہ کی بارگاہ میں مغفرت نصیب ہو جاۓ اور یہ کہ اللہ کے روبرو کہ سکيں کہ ہم نے ان کو روکنے کی کوشش کی تھی مگر انہوں نے کوئی دھیان نہ دیا۔
(2) دوسری یہ کہ شاید وہ نصیحت سننے کے بعد اللہ کی طرف واپس رجوع کرلیں۔
آخر میں یہی وہ لوگ تھے جوخدا کے قہر سے بچ پاۓ۔
"سو جب وہ اس کو بھول گۓ جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو کہ ذیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے۔"
"یعنی جب وہ ،جس کام سے ان کو منع کیا گیا تھا اس میں حد سے نکل گۓ تو ہم نے ان کو کہ دیا تم ذلیل بندر بن جاؤ۔"
سورۃ الاعراف 7/165-66
جنہوں نے حکم مذکور میں زیادتی کی ان لوگوں پر ایک ہی رات کے اندر سخت عذاب نازل ہوا جس کے نتیجے میں وہ بندر اور سور کی شکلیں اختیار کر گۓ۔
عزیز بہنوں اور بھایئوں۔یاد رکھیۓ: انسان فطرتی طور پر نیکی یا پھر برائی کا راستہ اپناتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ تنہا کسی راستے پر ہی کیوں نہ جارہا ہو، تب بھی اس کو یا نیکی یا بدی کرنے کی خواہش ہو تی ہے۔
لہذا اس امت کا شیوہ ہونا چاہیۓ کہ نہ صرف خود نیکی کرے بلکہ دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین کرے، نہ صرف خود برائی سے بچے بلکہ دوسروں کو بھی برائی سے بچنے کی تلقین کرے۔
یہی ہے ہمارے خطبے کا موضوع: امربالمعروف اور نہی عن المنکر۔
عزیز بہنوں اور بھایئوں۔فرض کیجیۓ کہ اگر ہمارے پاس باحیثیت مسلمان ایک شناختی کارڈ ہو تو ضروری ہے کہ اس کارڈ کو پہننے والے کی شناختی علامات بیان کی جائیں۔ ایک صحیح کارڈ پر تصریح کچھـ یوں ہوگی :"یہ مرد/عورت بھلائی کی نصیحت کرتا ہے اور برائی کی ممانعت کرتا ہے" جیسے اللہ نے ہماری تعریف بیان کی ہے:
"تم بہترین امت ہوجو لوگوں کے لیے پیدا کی گئ ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری عادتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالی پرایمان رکھتے ہو" سورۃ ال عمران 3/110
اچھائی یا برائی۔
جب کسی کو نصیحت کرنے کی بات آتی ہے تو دو اقسام کے لوگ پاۓ جاتے ہیں۔ پہلے وہ لوگ جو دوسروں کو اچھائی کا راستہ دیکھاتے ہیں اور برائیوں سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مومن اور مومنات ہیں، ایمان رکھنے والے مرد اور عورتیں، جن پر اللہ کی رحمت نچھاور کی جائیں گی۔
"مومن مرد اور عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار معاون اور) دوست ہیں، وہ بھلایؤں کا حکم دیتے ہیں اور برایؤں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے ہیں زکوۃ ادا کرتے ہیں، اللہ اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر اللہ بہت جلد رحم فرماۓ گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے۔"
سورۃ التوبہ9/71
دوسرے وہ لوگ ہیں جو برائی کا حکم دیتے ہیں مگر نیکی سے روکتے ہیں۔ ان منافقین پر اللہ تعالی کا قہر نازل ہو گا۔
"تمام منافق مرد اور عورت آپس میں ایک ہی ہیں، یہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنی مٹھی بند رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کو بھول گۓ اور اللہ نے انہیں بھلا دیا۔ بیشک منافق ہی فاسق اور بدکردار ہیں۔"
سورۃ التوبہ 9/67
قرآن کریم میں کامران مسلمان، مرد اور عورتوں، کی خصوصیت یہ بیان کی گئ ہے کہ وہ نیکی کی تلقین کرتے ہیں اور برائی کی ممانعت کرتے ہیں۔اس کے مخالف، سابقہ امتوں پر اللہ تعالی کا غضب اس لیے نازل ہوا کہ ان میں یہ خصوصیت زائل ہو گئ۔
اور اللہ تعالی بھی سکھلاتے ہیں کہ ۔
"بنی اسرائیل کے کافروں پر (حضرت) داؤد (علیہ السلام) اور(حضرت) عیسی بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئ، اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کیا کرتے بھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے۔"
"آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے، جو کچھ بھی وہ کرتے تھے يقینا وہ بہت برا تھا۔"
سورۃ المائدۃ 5/79-78
جب بھی کوئی قوم نیکی پھیلانے اور برائی روکنے کے فرض کی ادائیگی میں ناکام ہو جاتی ہے تو اس کی دعائیں غیر مقبول ہوتیں ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وصلم فرماتے ہیں" (قسم ہے) ان کی جن کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم لوگ نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائ سے روکتے رہو یہ نہ ہو کہ تم پر اللہ کا قہر نازل ہو جاۓ، تب تم دعا بھی مانگو گے تو قبول نہ ہونگیں۔" (احمد اور ترمزی)
ہمارے قدوہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام زندگی نیکی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے گزاری۔ مدینہ میں آمد پر، جوسب سے پہلی نصیحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار سے فرمائی وہ یہ تھی:
عبداللہ بن سلام روایت کرتے ہیں :جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو لوگ ان سے ملنے کے لیۓ دوڑے۔ میں جب ہجوم میں پہنچا اور ان کا چہرہ مبارک دیکھا تو فورﴼ ہی پہچان گیا کہ یہ چہرہ کسی کاذب کا نہیں ہو سکتا۔ پہلی بات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے کہی وہ یہ تھی " اے لوگوں!آپس میں سلامتی پھیلاؤ، بھوکوں کو کھلاؤ اور رات کو جب لوگ سو جائیں تو عبادت کرو تاکہ جنت میں آسانی سے پہنچ پاؤ ۔" (روایت ابن ماجہ)
ہمارے قدوہ صلی اللہ علیہ وصلم ہر طبقے کے لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے اور برائی کی ممانعت کرتے۔ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کے وہ نوجوان مسلمانوں کو کیسے نصیحت کرتے:
"عمر ابن ابو سلمہ کہتے ہیں" میں بچپن میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر نگرانی تھا۔ ایک بار انہوں نے مجھے اپنی پلیٹ میں سے ہر جگہ سے کھاتے ہوۓ دیکھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے " اے بچے! بسم اللہ سے پہل کرو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔" ابن ابو سلمہ کہتے ہیں " اس کے بعد سے میں ایسے ہی کھانے لگا۔" (بخاری اور مسلم)
اور ہمارے قدوہ صلی اللہ علیہ وصلم مسلمان خواتین کو بھی نیکی کی ہدایت فرماتے۔
زینب ، عبداللہ بن مسعود کی زوجہ ، روایت کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کہا " عورتوں! صدقہ کرتے رہو خواہ زیور ہی سے۔" (بخاری اور مسلم)
اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی بیویوں کی بات بھی ہوتی تو تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وصلم ممانعت فرماتے۔
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ خود بیان کرتی ہیں ایک دفعہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا " صفیہ کا دھیان رکھیۓ گا!" مطلب کہ وہ قد کی چھوٹی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب میں کہنے لگے " تم نےایک ایسی بات کہی ہے کہ اگرسمندر کے پانی میں ملائی جاۓ تو اس کو بھی میلا کردے گی۔" (سنن ابو داؤد)
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں اس کے بعد خواہ ان کے ساتھـ کوئی کیسا سلوک بھی کرتا وہ اس کے متعلق کوئی ایسی بات نہ کہتیں جو اس پر ناگوار گزرتی ۔
یہی تو ہے ہمارے دین کی جڑ: نیکی کی ہدایت کرنا اور برائی کی ممانعت کرنا۔ ہم سے پہلے آنے والے مسلمانوں نے اس امر کا عہد کیا تھا۔:
عبادہ بن السامت بتاتے ہیں: "ہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کیا کہ ہم ہر حال میں تابعدار رہیں گے اور اقتدار کے خلاف بغاوت نہ کریں گے، ہمیشہ سچ پر قائم رہیں گے اور یہ کہ اللہ کی راہ میں کسی کی تنقید سے خوفذدہ نہ ہونگے۔" (بخاری اور مسلم)
دوسرا حصہ:
ایک عالم، کرز الحارثی رحم اللہ علیہ، بدکار لوگوں کے پاس جا کر ان کے گناہوں کی تنبیہ کرتے۔ بدکار لوگ جواباً ان پر حملہ کر دیتے، یہاں تک کہ آپ بےہوش ہو کر گر جاتے۔ اس کے باوجود آپ نیکی کی نصیحت کرنا ترک نہ کرتے۔ (سیار العلام، امام الذھبی)
جب میں اسلامی اسکول میں پڑھاتا تھا تو ایک روز ایک بچہ میرے پاس آیا اور مجھے اپنی سالگرہ کے تحفے کے بارے میں آگاہ کرنےلگا۔ اسکی بات سن کرمجھے بڑی حیرانی ہوئی، کیونکہ سالگرہ منانا ہم مسلمانوں کی ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔اتنے میں بقیہ شاگرد جوسالگرہ کےحکم سے واقف تھے ہم آواز ہوکر زور زور سے کہنے لگے " سالگرہ منانا بند! سالگرہ منانا بند!"
طالبعلموں کے اس عمل سے مجھے بڑی تسکین پہنچی اور ساتھ ہی میرے اپنے بچپن کی یاد تازہ ہوگئ جب میں غیراسلامی اسکول میں طالبعلم تھا۔ اس اسکول میں کوئی بھی برائی پر بندش لگانے والا نہ تھا، بلکہ اساتذہ سمیت اس برائی کی ہر کوئی تلقین کرتا ۔ اگر آپ اپنی سالگرہ نہ مناتے تو آپ کو عجوبہ سمجھا جاتا۔ اور اگر آپ کو کسی شاگرد کی سالگرہ پر نہ بلایا جاتا تو آپ کا شمار "کول کڈز"(ذی اثر بچوں) میں نہ ہوتا۔
اللہ تعالی سے التجا ہے کہ وہ ان والدین پر اپنی رحمت نازل فرماۓ جو اپنی اولادوں کی اس ماحول سے حفاظت کر رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں برائی سے بچنے اور نیکی پر قائم رہنے کے لیے بہت پراثر مثال دی ہے۔
النعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گناہوں پر سکوت کرنے والے اور گناہوں میں بڑھ جانے والوں کی مثال ان لوگوں سی ہے جنہوں نے قرعہ ڈال کر ایک (پانی کے)جہاز جاۓ لی، کچھـ لوگ نیچے (تتق) میں رہے اور کچھـ لوگ اوپر (چھتری) پر- اب تتق والے(مسافر) پانی لے کر چھتری والوں پر آنے جانے لگے - چھتری والوں کو ایذا ہوئی آخر نیچےوالوں میں سے ایک شخص نے کلہاڑی لی اور جہاز میں سوراخ کرنے لگا (تاکہ وہیں سے پانی لے لے)۔یہ حال دیکھـ کر اوپر والے اس کے پاس آۓ اور کہنے لگے: 'ارے! یہ کیا غضب کررہا ہے!' وہ کہنے لگا: 'تم کو میرے آنے جانے سے ایذا ہوتی ہے اور پانی لینا بھی تو ضروری ہے' "
آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزید فرماتے ہیں "اگر آپ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں تو وہ سب کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔اور اگر اوپر والے ان کا خیال کریں تو سب عافیت پا ساتے ہیں۔"(بخاری- باب القرعہ فی مشکلات)
جب کوئی شخص نیکی کی تلقین کرے اور بدی سے روکے تو اس میں کچھـ ضروری خوبیاں ہونی چاہیۓ:
ایک : علم۔
دو: صبر، جیسا کہ لقمان علیہ سلام نے اپنے فرزند کو سکھلایا۔
تین: عدل و انصاف، مبلغ یہ نہ بھولے کہ ہر شخص میں کوئی اچھائی موجود ہوتی ہے۔
چار: حکمت عملی/ ذہانت
پانچ: حسن سلوک، جس کو نصیحت کی جاۓ اس کے ساتھ بہترین رویہ۔
نیکی پھیلانے اور بدی سے روکنے کا مقصد یہ نہیں کہ ہم کسی پر اپنا عتاب اتاریں یا کسی پچھلی توہین کا انتقام لیں۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ شخص ہدایت پا جاۓ خواہ اس کے لیۓ ہمیں کچھـ دیر اپنی انا کو کیوں نہ بھلانا پڑے۔ اسی طرح بعض اوقات اگلے کے احساسات کو بھی ٹھیس پہنچانا پڑتی ہے تاکہ وہ راہ راست پا سکیں۔ لیکن صرف حکمت اور علم رکھنے والا شخص ہی حالات کے مطابق عمل کر سکتا ہے۔
انجان مسلمان کو تکلیف پہنچانا یا ایسا شخص جو پہلی بار مسجد آیا ہو کو رسوا کرنا مقصد نہیں ہے۔ یہ ہتھکنڈے وہ لوگ استعمال جو خود اللہ کی طرف دعوت دینے کے صحیح طریقہ ناواقف ہوں۔
اختتام میں ، بہت ایسے طریقے ہیں جن سے نیکی کی طرف بلایا جا سکتا ہے اور برائی سے روکا جا سکتا ہے۔ کچھ طریقے مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ کوئی حوصلہ افزا لیکچر(تقریر)۔
2۔ کوئی مفیض کتابچہ یا ای میل
3۔ تحفے میں کوئی اچھا اسلامی ٹیپ
4۔ کوئی فائدہ رساں اسلامی اخبار یا میگزین
5۔ نصیحت پانے والے کے نام خاص ای میل یا خط۔
اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔
کیا آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں؟ تو یہ لیجیۓ طریقہ:
"تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیۓ جو بھلائی کی طرف لاۓ اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں۔"
سورۃ ال عمران
چلیۓ آج ہی سے کوشش شروع کرتے ہیں کہ نیکی کی تلقین کریں اور برائی کی ممانعت کریں!!!