اسلامی اسکول-کس کی ذمہ داری؟
محمد الشریف
آپ اپنے بیٹے کو اسکے عقد کے موقع پر کیا تحفہ پیش کریں گے؟ 'مٹسبشی لانسر' یا 'ہونڈا ایکارڈ' یا پھر آپ اسکو دائمًا کارآمد ہونے والا ٹوسٹر (toaster) نذر کریں گے؟
جب امام ابن القیم کے بیٹے کی شادی کا موقع آیا تو انہوں نے اپنے آپ کو تحفہ دینے کےمعاملہ میں الجھا ہوا پایا۔ بہت سوچا، آخرکار ایک ایسا تحفہ دینے کا فیصلہ کیا جو کہ نہ صرف انکے بیٹے کیلۓ مفید ہو بلکہ تمام مسلمانوں کیلۓ بھی فائدہ مند ثابت ہو۔ انہوں نے شمع جلائی، اپنا قلم سیاہی میں ڈبویا اور تحریرکا آغاز کیا۔ آپ دریافت کریں گے کہ یہ کونسا تحفہ تھا؟ یہ شادی اور بچوں کے حقوق کے بارے میں ایک کتاب تھی، جو انہوں نے اپنے بیٹے اور بہو کے نام وقف کی۔ انہوں نےکتاب کو ""تحفۃ الودود، بالحکام المولود"" کا نام دیا۔ اس تحفہ کی قیمت کیا تھی؟ یہ تحفہ یقینا انمول تھا۔
پیارے بہن بھائیوں!
اکثراوقات ہم حقوق الوالدین کے بارے میں مطلع کیۓ جاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اکثر والدین ہی اس مضمون کے بارے میں آواز اٹھاتے ہیں۔ اسکے برعکس ہم کتنی دفعہ اولاد کے حقوق کے بارے میں سنتے ہیں؟ یقینا اولاد کے بہت سے حقوق ہیں جو ان کی پیدائیش کے نو مہینے سے بھی قبل شروع ہو جاتے ہیں۔ بچوں کے پاس اللہ تعالی کا عطا کیا ہوا حق ہے جسکے مطابق انکے مستقبل کے والد اور والدہ کے ذمہ اپنے لیۓ ایک ایسا شریک حیات ڈھونڈنا ہے جو ان کے بچوں کواللہ تعالی سے تعرف کراۓ، اور ان بچوں کیلۓ بہترین مثال قائم کرے ۔
ابن القیم نے اپنی کتاب کے، جو انہوں نے اپنے بیٹے کیلۓ تحریرکی، ایک باب لکھا : باب نمبر 25۔ اس باب کا موضوع بچوں کو تعلیم دینے کا فرض، انکی تربیت کرنا، اور انکے درمیان عدل و انصاف کرنے کے بارے میں ہے۔
آج ہم 'بچوں کے کئی حقوق میں سے ایک حق کے بارے میں تبصرہ کریں گے اور وہ ہے، "اولاد کیلیۓ اسلامی تعلیم حاصل کرنے کا حق"۔
اللہ تعالی نے ہمیں قرآن میں حکم دیا :
""اے ایمان والو! تم اپنے آپکو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جسکا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں""۔ (66:6)
ہمیں اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ اپنے آپ کو نار جہنم سے بچائیں۔ لیکن سلسلہ یہيں پر اختتام پزیر نہیں ہوتا۔اس حکم کا ادراک ہمارے اہل و عیال پر بھی ہوتا ہے کہ ہم انکی بھی پاسبانی کریں- اپنے تمام وسائل کو بروۓکار لاتے ہوۓ ہمیں ہر حالت میں انکو بھی دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھنا ہے۔ اور انکی حفاظت کے لیۓ سب سے بڑا ہتھیار وہ علم ہے جو اللہ تعالی اور اسکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مطلوب ہے۔
ایک اور آیت میں لقمان اور ان کے بیٹے کے واقعہ میں ہمارے لیۓ مثال ہے۔
""اور اگر وہ دونوں (والدین) تیرے ساتھـ کوشش کریں کہ تومیرا شریک ٹھہراۓ، جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو انکا کہا نہ مان، اور دنیا میں انکے ساتھـ اچھے طریقہ سے بسر کر۔(31:15)
غور کیجۓ کہ اللہ تعالی نے کس طرح آیت میں شرک کا ذکر کیا ہے: " ایسی چیز جس کے بارے تمہیں علم نہ ہو"- یعنی اگر والدین اس بات پر زور ڈالیں کہ تم اللہ تعالی کے ساتھـ ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کے شریک الوہیت ہونے کی تمہارے پاس دلیل نہ ہوتو اس سے بچو کیونکہ کوئی چیز جسکا وجود ہی نہ ہو اور وہ غلط ہو، کوئی علم نہیں ہوتا۔
تاہم ایک دوسری صورت حال میں، اللہ تعالی قرآن میں نوح علیہ سلام اور انکے بیٹے کے درمیان باتوں کے تبادلہ کے بارے میں بتاتا ہے۔
""اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا، اور وہ کنارے پر تھا، اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھـ سوار ہو جا اور کافروں کیساتھـ نہ رہو۔ اس نے کہا میں کسی پہاڑ کی طرف جلدی پناہ لے لیتا ہوں، وہ مجھے پانی سے بچا لے گا، اس (نوح) نے کہا آج کوئی بچانے والا نہیں اللہ کے حکم سے سواۓ اسکے جس پر وہ رحم کرے اور انکے درمیان موج آگئی, تو وہ بھی ڈوبنے والوں میں ہو گیا۔""(سورہ ہود)
کہا جاتا ہے کہ ایک بچہ اپنی پرورش کے دوران جو کچھـ بھی سیکھتا ہے، اسکا 90 فیصد وہ اپنی زندگی کے پہلے پانچ سالوں میں سیکھـ لیتا ہے۔ زندگی کی اس نازک عمر میں بچے بھرپور جوش وجذبے کے ساتھـ اپنے بڑوں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کی جن سے انکی واقفیت باقاعدگی سے ہوتی ہے۔ سبحان اللہ! یہ وہ زندہ رہنے کی خصوصیت ہے جو اللہ تعالی نے انسانوں میں تخلیق کی ہے۔ کیونکہ اگر انکے اندر "استاد"(ٹیچر) کو خوش کرنے کی جذبہ نہ ہو تو اندیشہ اس بات کا ہے کہ انکی ذہنی نشونما میں کچھـ خامی ہے۔
اگر آپکو کسی پبلک اسکول میں پڑھنے کا اتفاق ہوا ہو، تو اپنی کنڈرگارٹن (kindergarten) یا پہلی جماعت کو یاد کریں - آپکا معاملہ استاد کے ساتھـ کیسا تھا؟ کیا آپ ہر موقع پر استاد یا استانی کی خوشنودی کی کوشش میں گامزن تھے؟ کیا آپ صرف انکی رضامندی حاصل کرنے کیلۓ کام کرتے تھے؟ میں اپنے بارے میں جانتا ہوں، جب کرسمس کے موقع پر ہمارے اسکول کے ڈرامہ کی تیاری کا وقت قریب آیا تو ایک اہم کردار کیلۓ ٹیچر نے میرا انتخاب کیا کیونکہ میں ایک اچھا اداکار تھا (مسکراہٹ)- البتہ وہ کردار مجھے ناپسند تھا۔ چنانچہ جب ایک ہم جماعت نے اس کردار کے عوض مجھے مٹھی بھر مکئی کے دانوں (corn puffs ) کی پیشکش کی تو میں نے بخوشی یہ پیشکش قبول کر لی۔ میں اس لڑکے کو" مسز مشل" کے پاس لے گیا اور فخریہ انداز میں اعلان کیا کہ 'میری جگہ جیسن کردار ادا کریگا'۔ ٹیچر مایوس ہو کر کہنے لگیں کہ وہ چاہتی تھیں کہ میں ہی وہ کردکر ادا کروں۔چونکہ میں انکو مایوس نہیں دیکھـ سکتا تھا لہذا میں نے وہ کردار، نہ چاہتے ہوۓ بھی ادا کیا۔ اس وقت میں صرف کنڈرگارٹن میں تھا۔
پریشان کن بات تب شروع ہوتی ہے جب بچہ ایک غیرمسلم استاد کی گود میں بٹھایا جاتا ہے۔ غیرمسلم استاد ایسا شخص ہے جو اس احساس ذمہ داری سے لاعلم ہے جو ہم پر اللہ تعالی اور اسکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں عائد ہوتی مگر مسلمان بچے پرجوشی سے اسکی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک بچی مسلم ملک کےایک ایسے پبلک اسکول میں پڑھتی تھی جسکی ٹیچر باعمل مسلمان نہ تھی ۔ وہ بچی، اپنی ماں کی خوبصورت مثال کو اپناتے ہوۓ، اسکول حجاب اوڑھے ہوۓ آتی۔
سبحان اللہ- حجاب اسکی ٹیچر کو ناپسند تھا، تاہم اس ٹیچر نے اس چھوٹی بچی کو حجاب اتارنے کا حکم دیا اور دھمکی دی کہ اگر وہ کل حجاب پہن کر اسکول آۓ گی تو انجام اچھا نہ ہو گا۔
بچی نے اپنے گھر آکر ماں کو اپنی ٹیچر کے رویہ سے آگاہ کیا اور کہا کہ اسکو اپنی ٹیچر کی ناراضگی قبول نہیں۔ ماں نے نرمی سے پوچھا، "آپ کس کو خوش کرنا چاہتی ہیں، اپنی ٹیچر کو یا اللہ کو؟" اس بچی نے اپنی ماں کی آنکھوں میں دیکھا اور جواب دیا، "اللہ کو"۔
اگلے روز وہ بچی اپنی ٹیچر کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ حجاب اوڑھے اسکول آئی۔ جب ٹیچر نے اسکو دیکھا تو سزا دینے کیلۓ پھٹ پڑیں، "میری نافرمانی کرنے کی تمہیں جرت کیسے ہوئی؟"
تلخ الفاظ کی بارش ہوتی رہی یہاں تک کہ بچی نے روتے ہوۓ اپنا سر جھکا لیا۔ پھر اس بچی نے چلا کر جواب دیا، "میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ مجھے کس کو خوش کرنا ہے، آپکو یا اسکو ؟"
"یہ اسکو کون ہے"؟ ٹیچر نے سوال کیا۔
"اللہ!"۔
یہ سنتے ہی ٹیچر کی آنکھیں کھل گئیں اور بجلی کی ایک لہر جسم میں دوڑگئ۔ وہ ساکت ہو گئیں۔ آنسو بھری آنکھوں کیساتھ اس بچی نے کہا، "نہیں میں صرف اور صرف اللہ کو خوش کروں گی، جو ہوتا ہے ہو جاۓ"۔
اس روز ٹیچر نے اس بچی کے گھراس کی ماں کے نام ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا، "آج آپکی بچی نے مجھے سکھایا کہ میں کون ہوں اور واقعی اللہ کون ہے۔ ایسی خوش نصیب بچی کی پرورش کرنے کا بہت شکریہ۔"
یہ ٹیلیوژن سیٹ اور پبلک اسکول ہماری نئی نسل کے خون کی رگوں میں آہستگی کے ساتھ تباہ کن ذہر پھیلا رہے ہیں۔ اگر آپ میری بات کا یقین نہیں کرتے تو آپ پبلک ہائی اسکول کے کسی بھی طالب علم سے گفتگو کیجۓ اور اسکی عادات اور اسلام کے بارے میں اسکی معلومات کا مشاہدہ کیجۓ۔
اگر والدین نے اپنے بیٹے کیلۓ پبلک اسکول کا انتخاب کیا اور اسکول کے آخری سال میں سالانہ رسالےکی تصویروں میں اپنے بیٹے کو ایک کافر لڑکی کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے رقص کرتے ہوۓ دیکھیں تو اسوقت اپنے بچے کی تربیت کے بارے میں فکرمند ہونے کا وقت بیت گیا ہو گا۔ تربیت کے بارے میں فکرمند ہونے کا وقت تب ہے جب بچوں کی پرورش کی جارہی ہو۔
الحسن بن علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے : ""آج اپنے آپکو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرو کیونکہ آج تم قوم کے جوان ہو لیکن کل تمہارا شمار اسکے بزرگوں میں ہوگا۔""
الحمد اللہ! میں نے اپنے حج کے سفر میں غیر معمولی طور پر ذہین نوجوانوں سے ملاقات کی۔ جب میں ان بھائیوں کے ساتھ بیٹھا اور انکی ذہانت پر حیران ہوا تو میں نے اپنے آپ سے کہا، "اگر ان کے والدین نے انکو دین کی تعلیم سے آراستہ کیا ہوتا تو یہ اسلام اور امت مسلمہ کے لۓ کیا کچھـ کر سکتے -"
پیاری بہنوں اور بھائیوں! ہمارے اسکول میں تیسری جماعت کا ایک طالب علم ہے جو قرآن مجید کے تقریبا سات (7) سپاروں سے واقف ہے۔ اسکی عمر آٹھـ سال ہے۔ میرے خیال سے میرا دعوی غلط نہ ہو گا اگر میں یہ کہوں کہ جتنے نوجوان اس خطبہ میں موجود ہیں ان میں سے 95 فیصد نوجوانوں سے زیادہ وہ بچہ قرآن مجید کا علم رکھتا ہے۔ اسکی عمر آٹھ سال ہے۔ میں نے اس بچے جیسے اور بہت سے ذہین بچوں کو دیکھا ہے جن کو پبلک اسکولوں میں دکھیل دیا گیا ہے۔ انکی ذہانت انکائی سلطنت (Inca) اور مصری اہراموں (pyramids) پر ضائع کر دی گئی، جب کہ وہ اپنی مادری زبان کے چند حروف کو بھی نہیں زبانی کہ سکتے۔
یحیی بن حمید کہتے ہیں : ہم امام حماد ابن سلامہ کے پاس گۓ تو دیکھا کہ وہ بچوں کو حدیث بیان کرنے میں مصروف ہیں۔ جب وہ مکمل کر چکے اور بچے بھی چلے گۓ تو ہم انکے قریب آۓ اور ان سے کہا، ""اے ابو سلامہ! ہم آپکے قبیلے کے بڑے ، آپکے پاس علم سیکھنے کیلۓ آۓ ہیں۔ آپ ہمیں چھوڑ کر ان بچوں کی طرف کیوں متوجہ ہو گۓ؟"" انھوں نے جواب دیا، "" ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں دریا کے کنارے بیٹھا تھا اور جھک کر پینے کیلۓ ڈول میں پانی بھر رہا تھا۔پانی پینے کے بعد مڑا تو دیکھا کہ یہ بچے وہیں کھڑے ہیں، اسلۓ میں نے پانی سے بھرا ڈول انکو دے دیا۔"" [ کتاب الایال، ابن ابی الدنیا ]
جیسا کہ شاعر نے کہا:
ننھے پودے، اگر تم مستقل مزاجی سے انکو پروان چڑھاؤ گے، وہ سیدھے آئیں گے
وہ جھکیں گے نہیں اگر سہارے سے سیدھا رکھو گے
شاید تادیب نوعمروں کو فیض پہنچاتی ہے
لیکن وہی تادیب بڑوں میں اب نتیجہ نہیں لاتی ہے
حصہ دوئم :
سعید ابن رحمہ الاصباہی اپنے شاگردوں کو واقعہ سناتے تھے: میں اس امید سے مسجد میں ہی رات گزارا کرتا تھا کہ عبداللہ بن مبارک کے حلقہ میں بہترین جگہ پا سکوں۔ میرے ہم عمر کئی دوست تھے لیکن کوئی بھی ایسا نہ کرتا جیسا میں کرتا تھا۔ جب حلقہ شروع ہونے کا وقت آیا ، عبداللہ بن مبارک آۓ اور انکے ساتھـ کئی بزرگ بھی تھے۔ انھوں نے عبداللہ بن مبارک سے شکایت کی، ""ان بچوں نے حلقہ میں ہم پر غلبہ پا لیا ہے، آپکے پاس ہمارے لۓ کوئی جگہ ہی نہیں بچی۔"" عبداللہ بن مبارک نے جواب دیا، "" یہ بچے مجھے تم لوگوں سے زیادہ پیارے ہیں۔ تم۔۔۔ تم کتنا عرصہ جی پاؤگے؟ یہ بچے، شاید، اللہ تعالی انھیں لمبی عمر دے""۔
سعید پھر اپنے شاگردوں کو کہتے، "" آج عبداللہ بن مبارک کے حلقہ میں سے سواۓ میرے اور کوئی بھی زندہ نہیں۔""
جب بچے کوئی سائینسی تجربہ کرتے ہیں تو وہ ایک آلہ استعمال کرتے ہیں جسکو تھرمامیٹر کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا آلہ ہے جو کسی شے کی حرارت متعلق آگاہ کرتا ہے۔
لیکن کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ہم گھروں میں کس قدر عیش میں ہیں؟ہمارے گھروں میں ایک چیز ہے جو تھرموسٹیٹ (حرارت کا پیمانہ) کہلاتی ہے۔ جب ہم بہت گرمی محسوس کرتے ہیں تو یہ ہمیں ٹھنڈا کرتی ہے۔ اورجب ہم بہت ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں تو یہ ہمیں گرم کرتی ہے۔ نہ صرف گرمی کو منعکس کرتی ہے بلکہ اس بارے میں کچھ کام کرتی ہے۔
جب ہم مسلم امت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ ہماری بہت سی اقوام تھرمامیٹر کا کام کر رہی ہیں۔ جب بوسنیا کی طرف سےگرمی کی لہر آتی ہے تو اسکا ردعمل ہماری نمازوں، ہماری دعاؤں اور ہماری چیک بک میں ہوتا ہے۔ اور جب چیچنیا میں گرمی ہوتی ہے تو اسکا ردعمل ہماری نمازوں، ہماری دعاؤں اور ہماری چیک بک میں ہوتا ہے۔لیکن یہ تھرمامیٹر کا کام ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم تھرموسٹیٹ بن جائیں۔ جب گرمی کی شدد ہوجاۓ تو چیزوں کو ٹھنڈک پہنچائیں اور جب ٹھنڈک ٹھنڈی کی شدد ہو جاۓ توچیزوں کو حرارت پہنچائیں
۔
آج ہر کوئی فلسطین میں ہمارے بہن بھائیوں کی طرف دیکھ رہا ہے اور اس وجہ سے پریشان ہے کہ ظاہری طور پر کچھـ کر نہیں سکتا ہے۔پیاری بہن و بھائیوں، ایسا نہ ہونے دیں کہ جونیکی آپ کر نہیں سکتے اسکی بنا پر آپ ان (نیکی کے) کاموں سے بھی باز رہیں جن کو کرنے کی آپ میں استطاعت موجود ہے۔
اللہ کی قسم، ہمارا مستقبل یہی بچے ہیں۔ اگر ہم انکو اسلامی تعلیم دینے اور انکی بہترین تربیت کرنے کیلۓ نہ اٹھے تو۔۔ تو ہم اپنے ہی ہاتھوں سے اس ملک میں اسلام کے مستقبل کو مفلوج کر کردینگے-
[ تم سب چرواہے ہو اور تم سب سے تمہارے ریوڑ کے بارے میں پوچھا جائیگا ]
لیکن آپ یہ کبھی بھی نہ سوچیں کہ جو بھی کام آپ بچوں کی دینی تعلیم کیلۓ کر رہے ہیں، وہ ضائع جائیگا۔ عیسائیوں کے پاس انگریزی کا ایک لفظ ہے، “Sacrifice” ( قربانی) بعض مسلمان جب صدقہ کے مفہوم کو سمجھنا چاہتے ہیں تو وہ غلطی سے اس قربانی کے مفہوم کو استعمال کرتے ہیں۔ زیادہ صحیح لفظ ہے
“to deposit” "جمع کرانا"۔ہم یہ پیسے بلامعاوضہ خرچ نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ ہم بدلہ میں کہیں زیادہ حاصل کرنے کیلۓ سرمایہ لگا رہے ہیں- ہم اسکو آخرت میں جمع کرا رہے ہیں۔
ہم ہمیشہ پوچھتے ہیں کہ "اس میں ہمارے لۓ کیا ہے؟"
بہت ساری نعمتوں میں سے۔۔۔۔
اول: اللہ تعالی آپکی دینداری کی وجہ سے آپکے بچوں کو محفوظ رکھے گا۔
اسکی مثال قرآن مجید میں ہمیں خضر علیہ سلام کی ملتی ہےجب انہوں نے بغیر معاوضہ کے ایک دیوار تعمیر کی۔ موسی علیہ سلام کو اسکی وجہ بیان کی:
""اور جو دیوار تھی، سو وہ تھی شہر کے دو یتیم بچوں کی، اور اسکے نیچے ان دونوں کیلۓ خزانہ تھا، اور انکا باپ نیک تھا سو تمھارے رب نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچیں تو وہ دونوں اپنا خزانہ نکال لیں، رحمت تمہارے رب کیطرف سے"" (18:82)
دوئم : مسلمان بچوں کو تعلیم دے کر اور انکی حفاظت کر کے آپ اس امانت کو پورا کر رہے ہونگے جو اللہ تعالی نے آپکو سونپی ہے۔ اور کسی کی امانت کی حفاظت، کامیابی اور401k جنت کا منصوبہ ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
کامیاب ہوۓ وہ مومن۔۔۔۔۔وہ جو اپنی امانتوں کی اور اپنے عہد کی پابندی کرنے والے ہیں اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جو وارث ہونگے جنت الفردوس کے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔"" (المؤمنون)
آخر میں ،میں یہ سوال پوچھنا چاہوں گا: اسلامی اسکولوں کی ذمہ داری کس کی ہے؟ اپنی بائیں جانب بیٹھے بھائی کو دیکھیں۔ اب اپنی دائیں جانب بیٹھے بھائی کو دیکھیں۔ اب میری طرف دیکھیں۔۔۔۔۔ پھر اپنی طرف دیکھیں۔ ہم تمام لوگ ذمہ دار ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک! یہ اسکول اور اسکی ہر چیز ہماری " ریوڑ " ہے اور ہم سےاس کے بارے میں پوچھا جائیگا۔
حال ہی میں میری ایک بھائی سے ملاقات ہوئی۔ وہ مجھ سے الھدی اسکول کے بارے میں پوچھ رہے تھےہم27 اپریل کو منعقد ہونے والی 'فنڈ ریزر' تقریب کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے اور پھر اس نے مجھـ سے کہا، "اللہ تمھاری مدد کرے"۔میں نے کہا، " نہیں، 'اللہ ہماری مدد کرے'" کیوں کہ میرے بھائی ان اسلامی اسکولوں کی اتنی ہی ذمہ داری تم پر بھی عائد ہوتی ہے جتنی مجھـ پر"۔