علم۔ ضروری ہے!
محمد الشریف
اللہ سبحانہ و تعالی نے مجھے اور میری زوجہ کو چھـ برس تک مدینہ منورہ میں قیام کرنے کی سعادت عطا فرمائی۔ اور یہ صرف تین سال پرانی بات ہے کہ جب میں نے مدینہ سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ وہ میرا آخری سال تھا اور امتحان سر پر تھے۔ امتحان کا ہفتہ چل رہا تھا اور امتحانوں سے پہلے پورے ہفتے کی تعطیل تھی۔ جمعرات کے دن (وہاں جمعرات اور جمعے کے دن کی چھٹی ہوتی ہے) میں صبح کے وقت سو رہا تھا جب میری بیوی گھر داخل ہوئی۔ وہ گھبرائی ہوئی اندر آئی۔ مجھے اپنے بلغاری ہمسائیوں کے گھر سے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ جب میری بیوی گھر میں داخل ہوئی تو اسکی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ ایسے آنسو نہیں تھے جو کوئی خطبہ سن کر گر پڑتے ہیں۔ وہ ایسا رونا بھی نہیں تھا جو پیسے کھو جانے پر یا کسی درس کے بعد غلط جگہ گاڑی کھڑی کرنے کی وجہ سے ٹکٹ ملنے پر آتا ہے۔ وہ ایسا رونا تھا کہ جب میں نے اسکے آنسو دیکھے تو میں سمجھا کہ اس کے والد فوت ہو گئے ہیں۔ پہلے اس نے کچھ نہیں کہا جب کہ میں نے پوچھا بھی۔ میں نے کہا، " کیا تمہارے والد فوت ہوگئے ہیں؟" اور اس نے کہا، " نہیں۔" پھر وہ بولی، " شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا انتقال ہو گیا ہے۔"
اور سبحان اللہ میں اپنے کسی رشتہ دار کے لئے اتنا نہیں رویا جتنا میں شیخ ابن باز کے لئے رویا۔ رحمہ اللہ۔ آپکے اپنے چچا فوت ہو جائیں تو شاید آپ کو اتنا غم نہیں ہوگا جتنا لوگوں کو شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کے انتقال پر ہوا۔ وہ جمعرات کا دن تھا۔ جمعے کے دن پوری سلطنت کی ہر مسجد میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کے انتقال پر پہلا خطبہ ہوا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں لاتعداد زندگیوں پر اثر ڈالا تھا۔ اس جمعے کو مدینہ منورہ اور پوری مسلم دنیا میں اداسی چھا گئی تھی۔
میں مسجد قبلتین گیا۔ اور اگر آپ حج یا عمرے کے لئے گئے ہوں توغالبًا آپ کا گزر مسجد قبلتین سے ہوا ہوگا۔ میں ادھر جمعے کی نماز پڑھتا تھا۔ ادھر ایک نہایت شیریں کلام شیخ رہتے تھے، شیخ محمد اسماعیل۔ انکے خطبات کافی مؤثر ہوتے تھے – میں نے واقعتًا ان کے خطیبانہ طرز سے بہت سیکھا ہے – مگر وہ کبھی اپنے خطبے کے دوران روتے نہیں تھے۔ البتہ اس دن وہ بھی رو ديئے جو کہ ایک غیر معمولی بات تھی۔ خطبے کا پہلا حصہ علماء کی فضیلت اور حصول علم کی ضرورت پر تھا۔
خطبے کا دوسرا حصہ شیخ ابن باز کے لئےخاص تھا – رحمہ اللہ تعالی۔ جب شیخ نے اس خبر کا اعلان کیا، جب انھوں نے کہا، "انتقال۔۔۔ " <<("شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کا۔۔۔" )>> تو وہ اسی لمحے پھوٹ پڑے۔ میں نے دیکھا، اور یہ بات میں نے خود محسوس کی کہ کعبے میں تقریبًا سارے خطیب جب شیخ رحمہ اللہ تعالی کی رحلت کی خبر سناتے تووہ سب کے سب اسی لمحے رونے لگتے۔
در حقیقت اگر آپ 'اضاءت القرآن الکریم' سنتے ہیں، جو سعودی عرب کا قرآن نشریات کا ادارہ ہے، وہاں ایک آدمی کے ذمہ اعلانات کرنا ہے۔ اکثر یہ لوگ فتاوی کے سوال جواب کا پروگرام کرتے تھے، اور وہ آدمی شیخ ابن باز سے سوالات کیا کرتا تھا۔ اس دن وہی آدمی کعبے میں نماز جنازہ کی خبروں کی نشریات کر رہا تھا۔ وہ خود ریڈیو پر رو پڑا اور رونے کی وجہ سے اپنے فرائض سرانجام دینے سے قاصر رہا۔ اسکے منہ سے الفاظ ادا نہیں ہو پارہے تھے۔
میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں؟ یہ ہمارے معاشرے کا مظہر ہے کہ ہمارے اندر اسلام کے بارے میں جاننے کی، اس دین کو سمجھنے کی خواہش ہے۔ اگر ہم یہ سوال پوچھیں کہ "کون پورا قرآن حفظ کرنا چاھتا ہے؟" تو تقریبًا سب ہی لوگ اپنا ہاتھ اٹھا لیں گے۔ اور "کون عربی زبان سیکھنا چاہتا ہے؟" تقریبًا سب لوگ اپنا ہاتھ اٹھا لیں گے۔ اور اس ہاتھوں کے اٹھنے کے ساتھ ہی ایک اچھی خبر ہوگی۔ آپ کہیں گے، "کچھ ہی عرصے میں عربی کی کلاس ہونے والی ہے۔ آپ لوگ اپنے خوابوں کو حقیقت بنا سکتے ہیں!" تو وہ کہیں گے، "معاف کیجئے گا۔ میں ابھی کچھ مصروف ہوں" ، اور ہاتھ نیچے ہو جاتے ہیں۔ اور اگر آپ کہیں، "ایک قرآن کی کلاس ہونے والی ہے!" تو وہ کہتے ہیں، "ابھی تو میرے امتحان سر پر ہیں۔ اس وقت تو میں یہ نہیں کر سکتا۔" اور ہاتھ نیچے ہو جاتے ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ جب علم کی پیاس موجود ہے، جب دین سمجھنے کی تڑپ موجود ہے، تو ہم کیوں اس موقعے سے فائدہ نہیں اٹھاتے؟ کھانا تیار ہے، بلاوے بھجوا دئے گۓ ہیں، پر کوئی آتا ہی نہیں۔ اگر آپ آنا چاہتے ہیں تو آئیے۔(دینی حلقات میں) آپ دو یا تین بھائیوں کو مطالعہ کرتے ہوئے پائیں گے۔ ایک اور حلقے میں آئیے۔ آپ چھے یا سات بھائیوں کو مطالعہ کرتے ہوئے پائیں گے۔ مطالعہ تو ہو رہا ہو گا۔ کچھ ادھر، کچھ ادھر۔ مگر ہماری اتنی بڑی جماعت کے مقابلے میں یہ بہت خفیف ہے۔انشاء اللہ آج میں خود کو اور آپ کو یہ یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ دین کا علم حاصل کرنے کی کیا اہمیت ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں، اور یہ واقعی بڑا مؤثر بیان ہے جو سورۃ اسراء 17/109-107 میں ہو رہا ہے۔
"(اے پیغمبر، کافروں سے) کہدو، تم قرآن کو مانو یا نہ مانو" کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ پورا کا پورا تمہارے لئے ہے۔
اگر آپ مشاہدہ کریں تو اکثر دیکھیں گے کہ فلاں فلاں اداکار کےاسلام قبول کرنے پر ہمیں بہت فخر ہوتی ہے ۔ نہیں، بلکہ فخر اس شخص کو ہونا چاہئے جو مسلمان ہوا ہے۔ وہی اپنے ایمان سے فیضیاب ہوگا۔
پھر اللہ تعالی فرماتے ہیں: "جو لوگ قرآن اترنے سے پہلے علم دئے گئے تھے انکو جب پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ تھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ اور کہتے ہیں، 'ہمارا مالک پاک ہے۔ بے شک جو وعدہ ہمارے مالک کا تھا وہ پورا ہوا۔' اور تھوڑیوں کے بل روتے ہوئے گرتے ہیں اور قرآن سے اور زیادہ انکو درد پیدا ہوتا ہے۔"
بھائیوں اور بہنوں، ہم اپنے دروس کے اختتام پر پوچھتے ہیں کہ کسی کو کوئی سوال تو نہیں ہے۔ اکثر سوالات آتے ہیں کہ، "کیا مارش میلو حرام ہوتے ہیں؟" یا "چاند دیکھنے کے مسئلے کے بارے میں کیا حکم ہے؟" یا "رہن _" وغیرہ۔ سوالات اسی طرح کے آتے ہیں۔ مگر ایک خاص شخص اپنا ہاتھ اٹھا کر سوال کرتا ہے۔
وہ کہتا ہے، "یا شیخ، دین کا علم حاصل کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟" لیکن میں آپ کو وہ جواب نہیں دوں گا جو وہ شیخ دے گا۔ میں آپ کو وہ بتاؤں گا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں فرمایا۔ انہوں نے کہا: " دین کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔"
اس کو اسی طرح سمجھیئے کہ یہ فرض ہے۔ کوئی آپ کو متفرق مسئلے نہیں بتائےگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتا رہے ہیں کہ دین کا علم حاصل کرنا فرض ہے۔
تو کیا اس پورے دین کی ہر چیز فرض ہے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ کوئی بھی اس علم کا پوری طرح احاطہ نہیں کرسکتا۔ مگر علماء کی رائے ہے کہ دین کے کچھـ حصے ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں علم نہ ہونے کی صورت میں انسان کو معافی نہیں ملے گی۔ اور ان میں سے ایک چیز جس کے بارے میں جاننا ضروری ہے وہ معاملات ہیں جن سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ جیسے اس کی عبادات۔ مثال کے طور پر وضو۔ نماز پڑھنے کے لئے وضو کرنا ضروری ہے۔ ایک انسان اگر مسلمان ہے، پوری زندگی مسلمان ہوتے ہوئےگزار چکا ہے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ، "ارے، میں نے تو کبھی نماز کے لئے وضو کرنا نہیں سیکھا۔" اس کو وضو کا طریقہ سیکھنا چاہئے۔ اور یہ اس کے اوپر فرض ہے۔ یقینًا اس سے وضو کا طریقہ نہ سیکھنے پر سوال کیا جائے گا۔
اور یہی نماز کا حکم ہے۔ کوئی مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ "میں نے تو کبھی سورۃ فاتحہ نہیں سیکھی۔ دس سال ہوگئے ہیں اور میں نے یہ سورت یاد نہیں کی۔ میں تو صرف اسے انگریزی میں پڑھ لیتا ہوں۔" وغیرہ ۔ کسی کو بھی اس معاملے میں چھوٹ نہیں ملے گی۔ اس کو یہ یاد کرنی ہے، اور یہ اس کے اوپر فرض ہے۔
یہی معاملہ زکوۃ اور حج کا بھی ہے۔ آپ دیکھیں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ جہاز میں سوار ہوئے اور حج کے لئے چلے گئے۔ انکا ہر عمل غلط ہوتا اور معلوم بھی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ پھر حج کے اختتام پر کہتے ہیں، "یا شیخ، مجھـ سے یہ غلط ہوگیا اور یہ غلط ہوگیا اور یہ غلط ہوگیا۔" ان کو اس بارے میں معافی نہیں ملے گی کیونکہ ان کویہ باتیں معلوم ہونی چاہئیں اور ان کو سیکھنا چاہئیے اور ان کو ان عبادات میں شامل ہونا چاہئیے۔
الحسن البصری علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے والے کے بارے میں فرماتے ہیں: "وہ اللہ کا محبوب ہے، اللہ کا خلیل ہے اور اللہ کی مخلوق میں بہترین میں سے بہتر ہے۔ زمین پر رہنے والوں میں سے وہ اللہ کو سب سے زیادہ عزیز ہے۔ اس نے اللہ کے حکم کو مانا اور دن رات لوگوں کو اللہ کا حکم بجا لانے کی دعوت دی اور پھر احسان کیا۔ اور وہ دنیا میں اعلان کرتا پھرتا ہے، 'میں مسلمان ہوں۔' یہی زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔"
علم کے کچھـ پہلو ہر مسلمان پر فرض ہیں۔ جبکہ بقیہ فرض کفایہ ہیں – اگر امت کے کچھ لوگ اس ضرورت کو پورا کر دیتے ہیں تو کسی پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ ورنہ پوری امت گناہ گار ہوگی۔
ابن الجوزی رضی اللہ عنہ اپنی کتاب مفتاح دار السعادۃ میں علم کے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں جو ہر مسلمان کو سیکھنا ضروری ہیں۔ وہ چار کا ذکر کرتے ہیں:
اول یہ کہ ایک شخص کو اصول الایمان الخمسہ سے واقف ہونا چاہئے۔ اس کو ہمارے عقیدے کے قوائد و ضوابط کے بارے میں معلوم ہونا چاہئے، جو کہ "اَمَنْتُ بِاللہِ وَ مَلَئِکَتِہِ وَ کُتُبِہِ وَ رُسُلِہِ وَ الْیَوْمِ الْاَخِرِ" سے واضح ہوتا ہے۔ وہ ساری چیزیں، وہ سارے اصول ایک آدمی کو معلوم ہونے چاہئیں۔
دوم یہ کہ اسلامی قانون کے بارے میں علم ہونا چاہئے۔ وہ فرائض جو ایک آدمی کو ادا کرنے ہیں، جیسے ہم نے نماز اور زکوۃ کے بارے میں بات کی۔ اور اسی طرح اگر وہ کاروبار کرتا ہے تو اس کے اوپر کاروبار کے معاملات میں اسلام کی تعلیمات کے بارے میں علم جاننا ضروری ہے۔
عمر رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ میں ایک چھڑی رکھتے - وہ لوگوں سے سوالات پوچھا کرتے اور صحیح احکام اور مسئلے نہ معلوم ہونے کی صورت میں انکو (چھڑی سے) مارا کرتے۔ اور صحیح احکام معلوم نہ ہونے کی صورت میں وہ انہیں بازاروں میں مارتے۔ وہ فرماتے تھے، "جس کو صحیح مسئلے نہیں معلوم ہوگا وہ رباء (سود) کھائے گا۔ چاہے اسکو یہ پسند ہو یا نہ ہو، وہ اپنی نادانی کی وجہ سے اس کا شکار ہو جائے گا۔"
تیسرا یہ کہ کچھـ چیزیں ایسی ہیں کہ وہ ہر نبی کی امت پر حرام تھیں۔ ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں، اور یہ اللہ سبحانہ تعالی نے قرآن میں فرمایا: "کہو، جو چیزیں میرے رب نے حرام کر دیں ہیں وہ بے شک بے حیائی کے کام ہیں۔ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔ اور گناہ کو اور ناحق ستانے کو اور اللہ تعالی کے ساتھ شریک کرنے کو جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری۔ اور اللہ تعالی پر وہ بات لگانے کو جو تم کو معلوم نہیں۔" ایک آدمی کے لئے یہ جاننا فرض ہے۔
اور چوتھی چیز جس کا انھوں نے ذکر کیا وہ انسان کا اپنے اہل خانہ کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہے۔ اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے اپنے بیوی بچوں کا خیال رکھنے کے بارے میں فرائض کیا ہیں۔ اگر ایک آدمی یہ نہیں کرتا تو اسکے بچے اور اس کی بیوی اس آدمی کو قاضی کے پاس لے جا سکتے ہیں، اور وہ اس پر زبردستی کر سکتا ہے۔ یہ جاننا اس آدمی پر فرض ہے اور یہ اس کے لئے اللہ کا حکم ہے۔
پہلے اکثر ہم کسی کانفرنس یا سیمینار یا ورک شاپ وغیرہ میں جاتے، تو تھوڑا سا علم حاصل کر کے بہت مطمئن لوٹتے تھے۔ لیکن تھوڑے علم پر مطمئن ہوجانا ہم سے پہلے آنے والوں کا شیوہ نہیں تھا۔ وہ کبھی پوری طرح مطمئن نہیں ہوتے تھے۔ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ علم حاصل کر کے مزید مطمئن کرنا چاہتے تھے۔
ابن الجوزی فرماتے ہیں، "میں اپنا حال بتاتا ہوں۔ میں کبھی بھی اپنے آپ سے یہ نہیں کہتا کہ میں نے کافی کتابیں پڑھ لی ہیں۔ اگر مجھے کوئی کتاب ملتی ہے جو میں نے پہلے نہیں دیکھی،" غور کیجئے کہ وہ دیکھی ہوئی کتابوں کی بات کر رہے ہیں، پڑھی ہوئی کی نہیں۔ "یہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے میں کسی سونے کے برتن سے ٹکرا کر گرگیا ہوں۔" کہا جاتا ہے کہ قوس و قزح کے ساتھ ساتھ چلتے جاؤ تو سونے کا برتن خود ہی مل جائے گا۔ یہ لوگ ہمیشہ اسی اچھی قسمت کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اور یہ وہی سونے کا برتن ہے جو انہیں حاصل ہوگا: خزانے کا صندوق۔ جب وہ ایسی کتاب ڈھونڈ لیں گے جو انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
سبحان اللہ، اگر ہم اپنے اندر علم حاصل کرنے کے لئے ایسا جذبہ نہیں پاتے تو یہ شاید ہماری قوم کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔گناہ ہمارے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دیتے ہیں تاکہ ہم آگے نہ بڑھ سکیں، دین کا علم نہ حاصل کر سکیں، اور اس پر عمل نہ کر سکیں۔
ابو مسعود رحمہ اللہ کا ارشاد ہے۔
"میرے خیال سے ایک شخص اپنے گناہوں کی وجہ سے اپنا سیکھا ہوا علم بھلا سکتا ہے۔"
اور بےشک، جیسے طبقات الحنفیہ 2/487 میں مرقوم ہے کہ جب ابو حنیفہ کو کوئی سوال سمجھـ نہیں آتا تھا تو وہ اپنے شاگردوں سے کہتے، "یہ بھول میرے کسی گناہ کا نتیجہ ہے۔" تو جب حلقے کے دوران انکا دماغ ساتھ نہیں دیتا تھا تو وہ "استغفراللہ" پڑھتے تھے۔ وہ اللہ تعالی سے معافی مانگتے اور حلقے کے دوران ہی اٹھـ کھڑے ہوتے، اپنے شاگردوں کو چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے، اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالی انھیں معاف فرما دے گا۔ پھر، جب انھیں وہ مسئلہ یاد آ جاتا، تو وہ خوش ہو کر فرماتے، "میرے لئے اچھی خبر ہے کہ شاید اللہ تعالی نے مجھے معاف فرما دیا ہے۔"
یہ بات الفضیل بن عیاد کو بتائی گئی۔ اور جب انہوں نے یہ سنا تو وہ رونے لگے اور فرمایا، "یہ اس سادی زندگی کا نتیجہ ہے جو وہ گزارتے تھے۔ دوسرے لوگ تو اس بات کو سمجھتے ہی نہیں۔" ابو حنیفہ کو تو یہ بات سمجھـ آگئی، مگر یہ بہت کم لوگ سمجھتے ہیں۔ ہمارے دماغ ہمارے گناہوں کی وجہ سے کام نہیں کرتے۔
اور جو لوگ ہم سے پہلے گزرے ہیں، وہ اپنا مال علم حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے تھے۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ کئی کلاسیں مفت ہوتی ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس حلقے میں زیادہ لوگ آئیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اگر اس کلاس میں بیٹھنے کے لئے پیسے مقرر کر دیئے جائیں تو وہ سوچتے ہیں، "کیا ہم کو اسلام سیکھنے کے لئے پیسے دینے پڑیں گے؟" اور آنے والوں کی تعداد اور کم ہو جاتی ہے۔ مگر پہلے ایسا نہیں تھا۔ اس زمانے میں لوگ اس عظیم مقصد کے لئے اپنا مال خرچ کیا کرتے تھے۔ وہ اپنا پورے گھر بیچ کر بھی اپنے بچوں کو دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجنے کو تیار ہوتے تھے۔
عالم دین علی ابن عاصم نے فرمایا، "(جب میں چھوٹا تھا تو) میرے والد نے مجھے ایک لاکھـ درہم دئے" – کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک لاکھـ درہم سے آپ کس طرح کی گاڑی خرید سکتے ہیں؟ مجھے نہیں معلوم مگر انشاءاللہ یہ آپ کو سمجھانے کے لئے اچھا ہوگا۔ انھوں نے کہا، "یہ ایک لاکھـ درہم لو اور جاؤ۔ میں اس وقت تک تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا جب تک تم اس ایک لاکھـ درہم کو ایک لاکھـ احادیث سے نہ بدل لاؤ۔اس وقت تک ہم تمہیں نہیں جانتے اور تم ہمیں نہیں جانتے۔"
اور جب وہ لوگ کچھ نیا سیکھتےتو وہ خوشی سے بھڑک اٹھتے:
البدایہ والنھایہ سے ہم ابو جعفر محمد ابن احمد النسفی کے بارے میں جانتے ہیں – اور یہی معاملہ کئی اور علماء کا بھی تھا، کہ وہ مفلسی کی زندگی گزارتے تھے– وہ اس قدر غریب تھے کہ ایک روز ان کے بیٹے نے ان سے سوال کیا، " ہم اس تنگ دستی کی زندگی سے کب چھٹکارا پائیں گے؟" تو وہ ایک رات غربت، ضرورت اور قرضوں کے بوجھ کے باعث غم و اداسی کی حالت میں سونے کے لئے گئے۔ جب وہ غم کی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے تو اچانک ان کو فقہ کا ایک مسئلہ، جو بہت عرصے سے انھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا، سمجھـ آ گیا۔ وہ خوشی کے مارے رات کی تاریکی میں اچھل پڑے اور چیخنے لگے، جیسے ہم کہتے ہیں ' مرد کون ہے؟ <ھو از دا مین> '(انگریزی میں اپنے کارنامے کی خوشی میں یہ کہا جاتا ہے) وہ کہہ رہے تھے، "این الملوک!"ان کی بیوی سمجھیں کہ ان کو پیسے حاصل کرنے کا طریقہ سمجھـ آ گیا۔ انہوں نے پوچھا، "کیا ہوا؟" جواب ملا، "دیکھتی نہیں، مجھے ابھی ابھی فقہ کا ایک مسئلہ سمجھ آیا ہے۔" اور ان کی بیوی اس خوشی کے اظہار پر حیران رہ گئیں۔ بے شک وہ پیسوں کے معاملے میں بے حد پریشان تھے، مگر اللہ تعالی کی طرف سے اس مسئلے کے حل جاننے پر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا ہی نہ تھا۔
ابو عبید القاسم کو اپنی کتاب 'غریب الحدیث' لکھنے میں چالیس سال لگے۔ کتاب لکھنے کے دوران اپنے گزرے ہوئے وقت کے بارے میں وہ کہتے ہیں، "شاید کچھ علماء کے دروس سے میں نے کوئی نقطہ سمجھا، کوئی گوہر، جو انھوں نے کہا اور میں جلدی سے گھر جا کر اس کو ایک مناسب سبق میں لکھـ لیتا۔ اسکے بعد پوری رات میرے چہرے پر ایک مسکراہٹ رہتی تھی۔ میں اسی مسکراہٹ کے ساتھـ سو جایا کرتا تھا، اس خوشی میں کہ میں نے آج کوئی نیا نقطہ سمجھ لیا ہے۔"
اور ہم سب نے امام نووی کی اور دوسروں کی کتابوں کے بارے میں سن رکھا ہے، لیکن اگر ہم نے کبھی ان کتابوں کو کھول کر پڑھنے کی کوشش کی ہو تو ہم انھیں ختم نہیں کر پاتے۔ ان لوگوں کو علم سیکھنے کا اور پھر اس کو لکھنے کا وقت کیسے مل جاتا تھا؟ اور میں تو صرف پڑھنے کی بات کر رہا ہوں، شروع سے آخر تک - لکھنا تو بھول ہی جائیے۔ امام نووی رحم اللہ تعالی کبھی بھی اس نیت سے کتب خانے نہیں جاتے تھے کہ بس علم ان کے دماغ میں سما جائے۔ وہ کہتے کہ وہ علم (کی سمجھ) کے لئے دعا کیا کرتے تھے، اور یہ حقیقت ہے، مگر آپ کو دعا بھی کرنی ہے اور اسکے ساتھ عمل بھی کرنا ہے۔ انشاءاللہ، اللہ تعالی آپ کی مدد کریں گے۔
اپنی پڑھائی کے زمانے میں امام نووی صبح سے شام تک بارہ حلقوں میں علم حاصل کرنے کی غرض سے جایا کرتے تھے۔ اور وہ حلقے صرف اچھا محسوس کرنے کے لئے نہیں تھے جہاں سے لوگ بغیر کچھ لکھے واپس آ جاتے ہیں۔ تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہر نشست سے وہ کتنا علم حاصل کرتے ہوں گے۔
مجھے یاد ہے کہ مدینہ یونیورسٹی میں ایک طالب علم کلاس کے دوران سو جایا کرتا تھا۔ وہ اسکالرشپ پر آیا تھا تو وہ پیسے نہیں دیتا تھا، صرف سوتا رہتا تھا۔ ہماری ہر روز پانچ کلاسیں ہوتی تھیں، اور ہفتے میں پانچ دن۔ اور وہ صاحب ہفتے میں پچیس کلاسیں سو کر گزارتے تھے۔ اور تو اور وہ یہ کام پورے سال کے ہر ہفتے کیا کرتے تھے۔ میں مذاق نہیں کر رہا۔ اور نہ ہی میں کچھـ بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہوں، اگر کوئی سعودی عرب سے آ رہا ہے تو وہ جانتا ہو گا کہ ایسے لوگ موجود ہیں۔ سالانہ امتحان سے پہلے آخری کلاس میں ہمیشہ ایک شخص مقرر کیا جاتا تھا جو استاد سے امتحان کو آسان بنانے کی گزارش کیا کرتا تھا۔ اور ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسا ہوتا تھا جو استاد سے بحث کرتا۔ تو جب ہمارے توحید کے استاد آئے، یہ لڑکا اٹھا اور کہنے لگا، "خفف یا شیخ" "ہمارے لئے اسے آسان بنائیے گا، اے شیخ" شیخ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ لڑکا کون ہے، اور وہ خاصے شرمندہ ہوئے اور معذرت کے ساتھ کہنے لگے، "بیٹا، یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔یونیورسٹیاں ہم سے مشکل سوال بنانے کو کہتی ہیں" وغیرہ۔ مگر وہ لڑکا – اور وہ واحد کلاس تھی کہ جس میں اس وقت یہ لڑکا سو نہیں رہا تھا – اس کے باوجود اس نے ہار نہیں مانی؛ یہ بات کہنے کے بعد وہ پھر سے سو گیا۔ تو اب صورت حال یہ تھی کہ شیخ بات کر رہے ہیں اور یہ لڑکا سو رہا ہے۔ تو انھوں نے اس کی میز بجانا شروع کر دی۔ وہ کہنے لگے، " سومت۔ ارے تم تو آسان امتحان چاہ رہے تھے، اٹھو!" یہ ایک بیش قیمت درس تھا؛ اگر آپ امتحان میں آسانی چاہتے ہیں تو آپ کو جاگنا پڑے گا۔
ایک شاعر نے ایک دفعہ ایک عورت کا قصہ رقم کیا، جو، ہمارے وقت کی کچھ بہنوں کی عادت کے برعکس، اپنے شوہر کے کتابوں پر سارے پیسے خرچ کر دینے کی وجہ سے اس سے ناراض رہتی تھی۔ ایک دن اس کے شوہر نے اس سے تنگ آ کر کہا، "تم مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ شاید ان کتابوں میں مجھے کوئی ایسی کتاب مل جائے جو مجھے قیامت کے دن اپنی کتاب کو داہنے ہاتھ میں پکڑنے میں مدد کر سکے۔"
اقول قولی ھادی واستغفر اللہ لیکم و لسان المسلمین و المسلمات، استغفر اللہ انہ ھو غفور الرحیم۔